لبنان اسرائیل سرحد کے قریب واقع لبنانی گاؤں اوزے کے امام مہدی اسکول کے صحن میں سات تابوت ایک قطار میں پڑے تھے۔ وہاں موجود سوگواران ابھی ان تابوتوں کو دفن کرنے کی تیاریوں میں تھے کہ اچانک کاروں کا ایک مختصر قافلہ وہاں آکر رکا۔ ان کاروں میں سے ایک پر حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ سوار تھے۔ حزب اللہ لبنان میں موجود سب سے زیادہ طاقتور مسلح گروہ ہے جس نے پچھلے پندرہ سالوں سے جنوبی لبنان میں اسرائیل کے قبضے کے خلاف ایک کامیاب مزاحمتی تحریک شروع کررکھی ہے۔
ان تابوتوں میں ان جنگجوؤں کی میتیں ہیں جو اسرائیل کے خلاف مختلف جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔ ان جنگجوؤں کی لاشیں اور دیگر لبنانی قیدیوں کی وطن واپسی جون 1998 کو حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی ایک ڈیل کا نتیجہ تھی جن کی رہائی کے بدلے میں حزب اللہ نے ایک اسرائیلی فوجی کی باقیات اسرائیلی حکام کے حوالے کی تھیں۔
سید حسن نصراللہ امام مہدی اسکول کے صحن میں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ ان کا نوعمر بیٹا جواد بھی تھا۔ انہوں نے باری باری ہر ایک تابوت کے پاس کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی۔ جب وہ اس تابوت کے پاس پہنچے جس پر 13 کا ہندسہ درج تھا تو وہ جھک گئے اور تابوت میں موجود میت سے سرگوشیاں کرنے لگے۔
ان کے ایک مددگار نے پاس کھڑے اسلامک ہیلتھ ایسوسی ایشن کے اہلکاروں کو اشارہ کیا تو انہوں نے آگے بڑھ کے اس تابوت کو کھول دیا۔ سفید کفن میں لپٹی ایک جوان کی میت سامنے تھی۔
میت کا چہرہ دیکھتے ہی سید حسن نصر اللہ کی آنکھیں بند ہوگئیں اور ان کے ہونٹ سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے لگے۔ پھر وہ آہستگی سے تابوت پر جھک گئے اور انہوں نے سید ہادی نصر اللہ نامی اس جنگجو کا ماتھا چوم لیا۔ یہ میت ان کے جواں سالہ بیٹے ہادی کی تھی جو گزشتہ سال ستمبر میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ایک لڑائی میں مارا گیا تھا۔
ان کا چھوٹا بیٹا جواد اپنے والد کے ساتھ ایک بت کی مانند خاموش اور ساکت کھڑا تھا۔ فضا میں ایک مکمل سوگوار خاموشی تھی حتیٰ کہ ایک کیمرہ مین نے اپنے کیمرے سے تصویر کھینچنے کے لئے کلک کا بٹن دبایا اور یہ کلک کی آواز بھی ایک گونج کی مانند محسوس ہوئی۔ حسن نصراللہ نے اس کیمرہ مین کی طرف رخ موڑ کے دیکھا اور پھر وہی خاموشی طاری ہوگئی۔
میں نے یہ سارا منظر ٹیلیویژن پہ دیکھا تھا اور اس کے متعلق معروف لبنانی اخبار ڈیلی اسٹار میں بھی ایک جذباتی مضمون پڑھا تھا۔ لہذا جب مجھے ایرک رولو نے ( جو کہ ایک معروف فرانسیسی صحافی رہے ہیں اور بعدازاں تیونس اور ترکی میں فرانس کے سفیر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں) سید حسن نصر اللہ سے ملاقات کا کہا تو میں فوراََ رضامند ہوگیا۔
بیروت سے شائع ہونے والے روزنامہ”السفیر” کے دوستوں نے اس ملاقات کا بندوبست کیا تھا۔ یہ ملاقات بیروت کے جنوبی حصے میں ہونا تھی جہاں بیروت شہر کی سب سے بڑی شیعہ آبادی رہتی ہے اور اس علاقے کو ایک قسم سے حزب اللہ کا مضبوط گڑھ سمجھاجاتا ہے۔
میرے لئے بڑی حیرت کی بات یہ تھی کہ جب ہم اس علاقے میں پہنچے تو جس عمارت میں ہمیں لے جایا گیا وہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد مختلف دفتری کاموں میں مصروف تھی جن میں سے اکثر نے حجاب نہیں لیا ہوا تھا۔ دوسری حیران کن بات یہ تھی کہ بخلاف پی ایل او کے دفاترکے ،جہاں کام کرنے والے باوردی اور مسلح اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے ۔ مشرق وسطی میں سب سے زیادہ مضبوط سمجھی جانے والی اس عسکری تنظیم کے اس دفتر میں موجود افراد میں سے کسی کسی نے وردی پہن رکھی تھی یا ان کے پاس ہتھیار تھے ورنہ یہاں کا ماحول بہت حد تک سویلین دفتروں جیسا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہاں کام کرنے والے اپنی سیکورٹی سے متعلق کافی مطمئن ہیں۔
سید حسن نصراللہ جس اپارٹمنٹ میں ہم سے ملاقات کیلئے موجود تھے وہاں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ ڈیپارٹمنٹ ایسی ہی ملاقاتوں کے لئے تیار کیا گیا تھا۔اس اپارٹمنٹ کے داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے امام خمینی کی ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی اور ملاقاتی کمرے میں ایرانی شہر قُم میں بُناگیا قالین بچھا ہوا تھا۔ ایک دیوار پر ایک گھڑی تھی جبکہ دوسری دیواروں پر قرآنی آیات سے مزین دو فریم لٹک رہے تھے۔ تازہ پھولوں کا ایک گلدستہ اس میز پر رکھا ہوا تھا جس پر ان کے بیٹے ہادی نصراللہ کی تصویر والا فریم پڑا ہوا تھا۔ ایک جواں سالہ لڑکا، جس نے پیراشوٹر کمانڈوز والی وردی پہن رکھی تھی، اس کے چہرے پہ ابھی داڑھی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے تھے اور اس کے ہونٹوں پہ ایک مسکراہٹ تھی۔
شیخ السید حسن نصراللہ جن کی عمر 38 سال ہے اور وہ درمیانے قد کے حامل ایسی شخصیت ہیں جن کے گول پر سیاہ داڑھی بہت بھلی معلوم ہورہی ہے۔ چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی ان کی گہری آنکھیں ایک ذہین، بردبار اور زندہ دل شخص کی عکاسی کررہی ہیں۔ انہوں نے سر پر سیاہ عمامہ اور بدن پر لمبی سیاہ عبا پہن رکھی ہے۔ یہ وہ لباس ہے جو عموماََ شیعہ علماء پہنتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کے عمامے کے اندر سے ان کے سر کے بال ظاہر ہورہے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دیگر علماء کے برعکس شرعی طریقے سے اپنے سر کے بال نہیں کٹواتے ۔ سادہ سے لباس میں ملبوس ان کا ایک ساتھی جس کی عمر 35 سال کے لگ بھگ ہے وہ بھی اس ملاقات میں موجود ہے اور وہ کبھی کبھی ہماری بات چیت میں شامل ہوتا ہے۔
"مجھے معلوم ہے کہ آپ نے قُم میں تعلیم حاصل کی تھی”۔ ایک موقع پر میں کہتا ہوں ۔
"نہیں ۔ایسا نہیں کہا جا سکتا ۔ میں وہاں صرف دو مہینوں تک رہا تھا۔ میری اسکول کی تعلیم یہیں بیروت سے ہے جہاں ہمارا خاندان رہا کرتا تھا۔ میرے والد سبزی بیچا کرتے تھے ۔ ہمارا خاندان جنوب سے ہجرت کرکے بیروت آیا تھا۔ ہمارا خاندان کافی بڑا تھا۔ میرے خاندان میں مجھ سے پہلے کوئی بھی دینی تعلیم کی طرف نہیں آیا۔ میرا شمار ایسے اہل مذہب میں ہوتا ہے جن کی خاندانی روایت مذہبی نہیں ہے۔ میں پہلے پہل بیروت میں ہی پڑھتا رہا پھر میرا انتخاب عراق میں نجف اشرف میں پڑھنے کے لئے ہوگیا اور میں وہاں چلاگیا ۔ میں وہاں دو سال تک رہا اور پھر لبنان واپس آگیا ۔ یہاں بعلبک شہر میں میری تعلیم مکمل ہوئی۔ ”
آپ نے سیاسی زندگی کا آغاز کب کیا ؟ میں نے دریافت کیا ۔
"میں ابھی 14 سال کا ہی ہوں گا جب میں نے امل میں شمولیت اختیار کی۔ (امل ایک شیعہ لبنانی مزاحمتی تحریک ہے جس کے بانی نبیح برّی ہیں) جب میں 18 سال کا تھا تو میں اپنے علاقے میں امل کا مقامی رہنما تھا۔ جب میں نے امل کو خیرباد کہا تو میں ان کی مرکزی کمیٹی ایک رکن تھا۔ میں نے 1982 میں امل چھوڑی یا یوں کہیئے کہ مجھے 1982 میں امل سے نکال دیا گیا کیونکہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن کا خیال تھا کہ ہمیں اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کرنی چاہیئے۔”
شیخ حسن نصراللہ کی مانند حزب اللہ کے دیگر ارکان اور قائدین کا بھی یہی پس منظر ہے۔ درمیانے یا غریب طبقے کے شیعہ جو کہ جنوبی لبنان کے رہائشی ہیں اور جنہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغازامل ملیشیا یاتحریک آزادی فلسطین کی معروف تنظیم الفتح سے کیا ہے ۔ جن کے لئے شیعہ شناخت اور آزادی کی جدوجہد ناصرف قومی تحریک کے ارتقاء کے لئے ایک لازمی امر ہے بلکہ وہ اسی جدوجہد سے اپنی انفرادی شناخت بھی تعمیر کرتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ پہلے حزب اللہ کے ملٹری آپریشنل چیف بنے اور پھر سید عباس موسوی کی اسرائیلی حملے میں موت کے بعد اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ وہ آج اسرائیلی افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کاپرائم ٹارگٹ ہیں۔
ہماری اس انٹرویو نما ملاقات کا آغاز چند سوالوں سے ہوا ۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی تنظیم حزب اللہ ، جدید زندگی اور اسکے تقاضوں ، اور چودہ سو سالہ پرانی مذہبی روایات کے درمیان کس طرح سے ایک توازن قائم کئے ہوئے ہے؟روایت پسندی اور جدت پسندی کی بحث میں حزب اللہ کہاں کھڑی ہے؟۔ ان کے جوابات میں وہ آفاقیت اور ابدیت نہیں تھی جو شریعت کی بنیاد پر قائم جوابات میں ہوا کرتی ہے۔
"ہمیں سب سے پہلے اس فرق کو سمجھنا ہوگا جو شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کی اساس ہے۔ اہل سنت میں اجتہاد کا دروازہ چند صدیاں پہلے بند کردیا گیا تھا۔ اگرچہ بہت سے اہل سنت دانشور اس روایت پر تنقید کرتے ہیں تاہم ابھی تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس کے برعکس اہل تشیع کی روایت میں اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا اور اہل تشیع میں آج بھی مجتہد کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور لوگ اپنی زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں اپنے مجتہد سے رہنمائی لیتے ہیں ۔”
سید حسن نصر اللہ نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
"اس شیعہ روایت کے نتائج بہت دوررس ہیں۔ اس روایت کے سبب ریاست اور مذہب کے مابین تعلق کے بہت سے پہلو واضح ہوتے ہیں۔ آئین اور سماج کی حدود کا تعین ہوتاہے۔ لوگوں اور روایات کے درمیان ایک توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے آپ معاشرے میں آنے والی نئی تبدیلیوں کو مذہبی روایات کے ہم آہنگ کرسکتے ہیں اور ان کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ اسلام کے تمام مکاتب فکر میں اجتہاد کی روایت کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔”
یہاں پر میں نے کہا کہ مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے مگر لبنان جیسے ملک اور معاشرے میں جہاں کئی مذاہب اور مسالک کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں وہاں کسی ایک مسلک کی نظریاتی اجارہ داری کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ دوسرے لفظوں میں ایک ایسا ملک جو سماجی طور پر مسلمان ہی نہیں کہلایا جاتا وہاں ایک اسلامی جماعت کی حکمرانی کیونکر ممکن ہے؟
سید حسن نصر اللہ نے جواب دیا ۔” آپ کے سوال سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسلام پسند تحریکوں کا مقصد اور سیاسی ایجنڈا کوئی ایک یکساں شکل و صورت کا حامل ہے۔تاہم ایسا نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ طالبان اور حزب اللہ اپنے مقاصد اور نظریہ و عمل میں کوئی ایک جیسی دو قوتیں نہیں ہیں۔ (ایسا کہتے ہوئے انہوں نے اپنے اس پاکستانی مہمان کی طرف شرارتی نظروں سے دیکھا اور اپنی آنکھیں چند لمحوں کے لئے میرے چہرے پر گاڑ دیں)۔پھر بھی یہ دونوں تحریکیں اپنی اساس اسلام کو ہی قرار دیتی ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت ہے۔ اس صورتحال میں 1993 کا سال ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے جب ہماری جدوجہد اور اسرائیلی قبضہ اس حد تک جا پہنچے تھے کہ لبنان کے مسیحیوں نے بھی ہمیں ایک آئینی اور قومی تحریک کے طور پر قبول کرلیا تھا۔
اور جہاں تک لبنان میں ہماری تحریک کے اسلام پسند ہونے کا سوال ہے تو ہمارا مقصد لبنان کے مسلمانوں اور مسلم برادری کو اسلام پسند بنانا ہے تاکہ ان کی زندگیوں اور نظریہ حیات کو اسلامی اصولوں کے تابع بنایا جاسکے۔ بس۔”
میں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حزب اللہ کے بنیادی مقاصد اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں پیوست ہیں اور یہ تنظیم اپنی ساخت میں انہی بنیادوں پر قائم ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ مسلح مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟تب کیا ہوگا جب اسرائیل لبنان کے علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کردے گا اور اس کی افواج واپس چلی جائیں گی۔ اگر حزب اللہ کی حالیہ مزاحمت دیکھی جائے تو ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ ایسی صورتحال میں حزب اللہ کیا کرے گی ؟
"ہمیں اسرائیلی انخلاء سے متعلق ایسی کسی شرط کو قبول نہیں کرنا جو اسرائیل طے کرتا ہے۔ آزادی کو قابض کی مرضی اور شرائط کے ساتھ مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل نے لبنان پر جارحیت کی۔ اس کی فوجوں نے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا۔ اب یہ ہمارا مقدس فریضہ ہے کہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے مزاحمت کریں اور یہ مزاحمت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لبنان کے کسی بھی حصے پر اسرائیلی قبضہ باقی رہے گا۔”
کیا یہ اصول فلسطین اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا۔
"شام اور لبنان ، دونوں کےساتھ ایک جیسی صورتحال کا معاملہ ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے تو اگر ان کے رہنما اسرائیل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں تو پھر ہمارے پاس کیا صورت باقی رہتی ہے؟ہم فلسطینیوں کے لئے ان کی قیادت کا متبادل نہیں بن سکتے۔ ہاں اگر وہ مزاحمت کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے شانہ بشانہ پائیں گے۔”
پھر آپ کی نظروں میں فلسطین کا کیا مقام ہے؟ میں نے پوچھا۔
"ہم فلسطین اور وہاں کے لوگوں کی آزادی کے لئے دعاگو ہیں اور فلسطینیوں سے ہماری مراد وہاں کے مسلمان، مسیحی اور یہود سبھی ہیں”۔
اب تک ہونے والی گفتگو سے ہم یہ سمجھ چکے تھے کہ سید حسن نصر اللہ اور موجودہ ایرانی صدر محمد خاتمی اور ان کے حامیوں میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس شک کو رفع کرنے کے لئے ہم نے ان سے براہ راست یہ سوال پوچھا جو ایران میں موجود روایت پسند علماء اور اصلاح کاروں کے مابین فقہ اور اس کی طاقت کے معاملے پر تفریق کو ظاہر کرتاتھا۔ سید حسن نصر اللہ نےاس سوال پر بڑے محتاط اور نپے تلے الفاظ میں جواب دیا ۔
"ولایت فقیہ ایک جمہوری نظام ہے۔ جہاں ولی فقیہ کو مجلس ِ خبرگان منتخب کرتی ہے۔ اس کی طاقت عوامی رائے سے آتی ہے۔ پھر ایک صدر ِ مملکت ہے جسے خود عوام براہ راست مقرر کرتے ہیں اور پھر ایک پارلیمان ہے اور وہ بھی عوامی انتخاب سے وجود میں آتی ہے۔ یہ تینوں عوامی ادارے مل کر ایرانی طرز کی جمہوریت کو بناتے ہیں۔ ان تینوں اداروں کو کام کرنے کے لئے ہم آہنگی اور ایک لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقیناََ امام خمینی کے زمانے کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ تمام ایرانیوں کی پسندیدہ شخصیت تھے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مضمون روزنامہ ڈان میں جولائی 1998 میں شائع ہوا۔ اس کے مصنف معروف پاکستانی دانشور ڈاکٹر اقبال احمد تھے جس کی وفات 1999 میں ہوئی۔
مترجم: محمد شوذب عسکری 29 ستمبر 2024۔