حزب الله کے جنرل سیکرٹری جناب سید حسن نصر الله کی شہادت کے بعد عرب سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر یہ بحث عام ہو چکی ہے کہ اس قتل میں ایرانی ملوث ہیں ، مبینہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایرانی فورسز کے ایک اعلی افسر نے سید حسن نصر الله کے بنکر میں موجود ہونے کو کنفرم کیا ہے -اگرچہ اس حوالے سے بہت سے لوگ متفق نہیں بھی ہیں لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہو جائے گا اور اسرار آہستہ آہستہ کھلنے لگیں گے – بہت سے عسکری تجزیہ نگار ، تھنک ٹینک رونما ہوئے واقعات کو موجودہ واقعات سے جوڑتے ہوئے ان ہی کا تسلسل کہہ رہے ہیں –
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے قتل سے لے کر حماس کے سیاسی بیورو چیف اسماعیل ہنیہ اور اب حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کے قتل کے علاوہ بھی اسرائیلی فورسز ان واقعات کے درمیان بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بہت سے اہم لوگوں کو قتل کر چکی ہیں –
منگل 2 جنوری 2024 کی شام کو اسرائیلی فورسز نے بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں حماس کے دفتر پر دھاوا بولا جس میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن اور مغربی کنارے میں اس کے رہنما صالح العروری کو قتل کر دیا گیا ، وہ القسام کے دو دیگر لیڈروں کے ساتھ شہید ہوئے- غزہ کے باہر ٧ اکتوبر ٢٠٢٣ کے بعد جنگ کے دوران یہ پہلا قتل تھا-
پیر، اپریل 1، 2024 کی سہہ پہر اسرائیلی فضائیہ نے ایرانی سفارت خانے کے ملحقہ دفاتر پر براہ راست حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے آپریشنز کے ڈپٹی کمانڈر محمد رضا زاہدی ہلاک ہو گئے-
اسرائیلی فورسز نے سرکاری طور پر اس قتل کو تسلیم نہیں کیا اور کچھ ہی دیر بعدایران نے سفارت خانے پر بمباری کے جواب میں براہ راست اسرائیلی علاقے پر متعدد میزائل اور ڈرون داغے-اس کے بعد ایرانی حملے کو روکنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں ایک بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا گیا تھا –
اتوار 19 مئی 2024 کی سہ پہر جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین عبداللہیان مشرقی آذربائیجان کے دورے سے واپس تہران آرہے تھے تو صدر اور ان کے ساتھی کے ہیلی کاپٹر سے رابطہ منقطع ہوگیا ، بعد میں اعلان کیا گیا کہ ہیلی کاپٹر خراب موسم کی وجہ سے پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرانے کے بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا –
بغیر نتائج سامنے لائے یہ تحقیقات بند کر دی گئی ، اور ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا استعمال جو سب سے زیادہ نگرانی، تحفظ، دیکھ بھال اور نگہداشت سے مشروط ہے، جسے اعلیٰ تربیت یافتہ عملہ چلاتا ہے، جو حفاظت کے عین مطابق طریقہ کار پر عمل پیرا بھی تھا، سے یہ ہیلی کاپٹر اتنی آسانی سے کیسے گر سکتا ہے۔ اس کے گرنے کو صرف خراب موسمی حالات سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب تہران اسرائیل کے ساتھ سیاسی و عسکری بدامنی کا مشاہدہ کر رہا ہو –
اسرائیلی قابض فوج نے اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور اس کے بعد قتل کی وارداتوں میں شدت آتی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے جو کچھ ہوا وہ صرف ایران ، حماس اور حزب الله کے رد عمل کو جانچنے کے لئے تھا –
منگل 30 جولائی 2024 کو اسرائیلی فورسز نے بیروت کے جنوبی نواحی علاقے میں ایک عمارت پر چھاپہ مارا، جس میں حزب اللہ کے ذمہ دار شخص فواد شکر کو نشانہ بنایا گیا، جو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ شمالی سرحد کے ساتھ حملوں اور کارروائیوں کا ذمہ دار تھا اور امریکہ کو مطلوب تھا۔ اسرائیلی افواج کی یہ قاتلانہ کارروائی کامیاب رہی اور اس کے نتیجے میں بے شمار معصوم شہری بچے اور خواتین بھی شہید ہوئے-
منگل، 30 جولائی، 2024 کو حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ نئے ایرانی صدر کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دینے کے لیے مختصر دورے پر تھے.
31 جولائی بروز بدھ کی صبح جب وہ تہران میں پاسداران انقلاب کے زیر استعمال محفوظ عمارتوں میں سے ایک میں سونے کے لیے گئے تو اسرائیلی موساد سے وابستہ ایک گروپ نے ان کے کمرے پر گائیڈڈ میزائل داغا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے ذاتی معاون وسیم ابو شعبان سمیت مارے گئے ، اسی عمارت کے دوسرے کمروں اور دوسری منزلوں پر کئی ایجنسیوں اور گروہوں کے لوگ موجود تھے ، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، یہ واقعہ ایرانی ایجنسیوں ، حکومت اور پاسدران انقلاب کے کردار کو مشکوک بناتا ہے – عرب میڈیا نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد پاسدران انقلاب کے ایک اعلی افسر کی گرفتاری کو بھی رپورٹ کیا تھا –
کچھ اخباری تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسماعیل ہنیہ کو ایک دھماکہ خیز ڈیوائس کے ذریعے مارا گیا جسے موساد کاایجنٹ انکے داخلے سے پہلے انکے کمرے میں لایا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں نے اپنے پلان میں دورے کے دوران مخصوص جگہ اور وقت پر کامیابی کے ساتھ ہدف تک پہنچنے کا بہترین انتظام کیا ہوا تھا -شکر اور ہنیہ کے قتل کے بعد یہ علاقہ بدامنی، دباؤ اور علاقائی جنگ کے خوف کی کیفیت سے گزرا، اگرچہ یہ خوف جلد ہی ختم ہوگیا-
منگل، 17 ستمبر 2024 کی سہ پہر، اسرائیلی فورسز نے سیکورٹی کی سب سے بڑی چندکاروائیوں میں سے ایک کو سر انجام دیا، اسرائیلی فورسز کے سائبر ونگ نے مواصلاتی رابطے کے لئے عسکری تنظیموں میں محفوظ ترین سمجھی جانے والے ڈیوائس”پیجر” کو اڑا کر حزب اللہ کے ہزاروں ارکان کے اجتماعی قتل کی کوشش کی ، یہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر تو کامیاب نہ ہو سکے لیکن نتائج تباہ کن تھے لبنان اور شام میں ایک اندازے کے مطابق سو کے قریب افراد جانبحق ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے، اور ان میں سے بہت سے اپنی بینائی سے محروم ہو گے –
اسکے تین دن بعد جمعہ 20 ستمبر 2024 کو اسرائیلی فورسز نے لبنان ہی میں ایک عمارت پر چھاپہ مارا جس میں آپریشن ڈویژن کے سربراہ اور امریکہ کو مطلوب سینئر رہنما ابراہیم عاقل کو نشانہ بنایا گیا، اس کاروائی میں کمانڈر سمیت مزید 10 رہنما بھی شامل تھے۔ 2024 کے اوائل میں وسام التویل کے قتل کے بعد رضوان (ایلیٹ) فورس کے مرکزی تربیتی کمانڈر احمد وہبی کو بھی اس چھاپے میں مار دیا گیا –
منگل کی سہ پہر 24 ستمبر 2024 کو، اسرائیلی فوج نے لبنان ہی کے جنوبی مضافاتی علاقے میں ایک عمارت پر بمباری کی جسکا ہدف ابراہیم الکوبیسی تھے، جو حزب اللہ کے متعدد میزائل فارمیشنز کے کمانڈر اور بدر یونٹ کے سابق کمانڈر تھے-
27 ستمبر بروز جمعہ بیروت کے وقت شام 6:00 بجے اسرائیلی فورسز نے بیروت کے جنوبی مضافات میں چھ عمارتوں پر 80 سے زیادہ بھاری بم گراتے ہوئے سب سے بڑی قاتلانہ کارروائی کی جس کا مقصد حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کے ساتھ جنوبی محاذ کے کمانڈر علی کرکی کو قتل کرنا تھا، اس اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں سینکڑوں بچے اور عام شہری بھی شہید ہوئے –
یہ خبر حماس سمیت لبنان اور ان علاقوں میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والی دیگر تنظیموں کے لیے ایک صدمے کے طور پر سامنے آئی،کسی کو یقین اور یہ توقع نہیں تھی کہ اسرائیلی فورسز بے باکی اس حد تک پہنچ جائیں گی –
28 ستمبر بروز ہفتہ اسرائیلی فورسز نے بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک حملے میں حزب اللہ کے پریوینٹیو سیکورٹی یونٹ کے کمانڈر نبیل قوق کو قتل کر دیا –
29 ستمبر ، اتوار کی رات کو اسرائیلی فورسز نے لبنان میں تحریک حماس کے رہنما شریف ابو الامین کو جو ان کے اہل خانہ کے ہمراہ الباس کیمپ کے ایک گھر میں موجود تھے کو بمباری کرکے شہید کر دیا تھا –
پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین نے بھی لبنان میں اپنے عسکری ونگ میں اپنے دو رہنماؤں کا سوگ منایا، جو بیروت میں ایک اپارٹمنٹ پر ہونے والے بم دھماکے میں شہید ہوئے تھے-
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی تنظیموں کو ایرانی فورسز کے مقابلے میں اسرائیلیوں کے حملوں سے بچاؤ کا زیادہ تجربہ ہے اس کا بڑا تجربہ ہے، اگرچہ وہ بھی اسرائیلیوں کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھا چکی ہیں ، حماس کے سربراہ احمد یاسین کو قتل کر دیا گیا تھا جسکے بعد ان کی جگہ لینے والے عبدالعزیز الرنتیسی کو مقرر کیا گیا لیکن وہ بھی قتل کر دیے گئے – جہاں تک خالد مشعل کا تعلق ہےوہ بھی ایک قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے اور آخری لمحات میں بچ گئے، پھر ان کے بعد اسماعیل ہنیہ کو سربراہ مقرر کیا گیا، لیکن وہ بھی قتل ہو گئے-
ابھی حال ہی میں اسلامی جہاد تحریک کے عسکری ونگ کی قیادت کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے –
فلسطینی تنظیمیں لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹیں نہ کبھی ٹوٹیں اور نہ ہی کمزوری محسوس کی ہر مشکل وقت میں تنظیموں کے اندرونی حالات اور دشمن پر قابو پایا اور گزرے واقعات اور دشمن سے بہت کچھ سیکھا-
اسرائیلوں کی طرف سے تنظیمی رہنماؤں اور اہلکاروں کی قتل و غارت گری کا واحد نتیجہ اسرائیلی معاشرے کے لیے خوشی کے مختصر لمحات ہوتے ہیں، جس کے بعد ہرکوئی حقیقت کی طرف لوٹ جاتا ہے، وہ حقیقت جو 7 اکتوبر کی وجہ تھی اور غزہ میں مزاحمت کی افسانوی ثابت قدمی کا اظہار ہے –