انتہا پسندی ”انتہائی ہونے کا معیار یا حالت“ یا ”انتہائی اقدامات یا نظریات کو پروان چڑھانا“ ہے۔ بنیادی طور پر یہ اصطلاح سیاسی یا مذہبی معنوں میں کسی ایسے نظریئے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس میں شدت اور انتہا کو فروغ حاصل ہو۔یہ انتہا پسندی عموما اشتعال پسندی اور دنگا فساد کا سبب بنتی ہے۔
دین اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے، جس میں اشتعال پسندی کی ممانعت کی گئی ہے. اسلام میں حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی معاملے کو حل کرنے کےلیے پہلے دونوں فریقین کے مسئلے کو اطمینان کے ساتھ سنا جائے اور پھر کسی فیصلے پر پہنچ کر سنانے کا حکم دیا ہے، اسلام نے قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی ممانعت کی ہے کیوںکہ اس سے بھی شرانگیزی کے معاملات پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کے کچھ انتہا اور شدت پسند لوگ ایسے بھی ہیں جو مذہب کی آڑ لے کر بنا بات جانے سمجھے اس بات کی تصدیق کئے بغیر ہی کسی بھی بے گناہ انسان کی جان تک لے لیتے ہیں اور مذہب کو انتہا پسند اور نفرت انگیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔
بے شک مسلمان ہونے کے ناطے حرمت اسلام اور حرمت محمدمصطفیٰﷺ پر ہماری جان بھی قربان ہے۔ خدا تعالیٰ کی گستاخی کرنے والے ، گستاخ رسول ﷺ، یا گستاخ صحابہ و اہل بیت کی سزا ہمارے آئین میں واضح طور پر موجود ہے اور عدالتی نظام بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امن، صبرواستقامت اور انسانیت بھی دین اسلام کے اصول ہیں، اس میں شدت پسندی کے عمل کی ممانعت کی گئی ہے۔
ہمارے ملک میں نام نہاد مذہبی شدت پسندی کی آڑ میں بے گناہوں کو انتشار پسند لوگوں کی طرف سے سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ یا پھر کئی ایک دفعہ بے گناہ کو پھانسی کے تختے پر لٹا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک دل سوز و دل خراش واقعہ سندھ کے شہر میرپور خاص میں رونما ہوا۔ توہین مذہب کو بہانہ بنا کر مشتعل ہجوم کی ایماء پر ڈاکٹر شاہ نواز کا پولیس کے ہاتھوں قتل کا واقعہ رونما ہوا ،جسے اس وقت تو پولیس مقابلے کا نام دیا گیا، بعد میں اعلیٰ سطح پر تحقیقات کے مطابق مقابلہ نہیں بلکہ یک طرفہ فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا ۔
میر پور خاص کی پولیس نےمشعل ہجوم کی ایماء پر توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر شاہ نواز کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا ۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس ملزم کو پولیس گرفتار کرتی اور عدالت میں کیس کی سنوائی کے بعد اس پر اگر فرد جرم عائد ہوتا تو قانون کے مطابق سخت سزا دی جاتی تا کہ دوبارہ پھر کسی ملعون کی جرات نہ ہوتی کہ وہ توہین مذہب یا توہین رسالت کا مرتکب ہوتا۔ توہین مذہب کے سلسلے میں اُس ایک ہفتے کے دوران اس نوعیت کے ماورائے عدالت کا دوسرا واقعہ ہے، جس کی انسانی حقوق کے گروپوں نے شدید مذمت کی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں توہین رسالت کے مشتبہ ملزمان کی ہلاکتیں عام ہیں لیکن توہین مذہب کے معاملے میں پولیس کے ذریعے ماورائے عدالت قتل شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات توہین مذہب کے الزامات محض افواہ ہی ہوتے ہیں اور اکثر ہجوم کے ذریعہ فسادات اور ہنگامہ آرائی کو جنم دیتے ہیں، جن کی نوبت انسانوں کی ہلاکتوں تک پہنچ جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں توہین مذہب کے مشتبہ افراد پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کیوںکہ اسلامی جمہوریہ ملک ہونے کے باوجود انصاف ہمارے ملک سے ناپید ہے۔ اور لوگ بھی اسی وجہ سے دلبرداشتہ اور مشتعل ہو کر انتہائی قدم اٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہنواز والے واقعے کی کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے۔ ایسے شدت پسند لوگوں کی وجہ سے بے شمار ایسے ہی توہین مذہب کے واقعات کی کالک ہمارے معاشرے پہ بدنما داغ بنی ہوئی ہے۔ شدت اور مذہبی انتہا پسندی کے اس موقعے پر انسانیت کی ایک مثال دیکھنے کو ملی۔
سندھ کےایک ایسے بیٹے نےجو مذہب کے لحاظ سے کافر ہے، اس نے مذہبی ہم آہنگی اور انسانیت کی زندہ مثال قائم کی ۔جب مشتعل ہجوم اور سفاک انسانی و مذہبی حقوق کے علمبردار لوگوں اور ہماری حفاظت پر معمور پولیس گروہ نے اپنے ہی مذہب کے انسان کو مار کر اس کی نعش کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی، تب ہندو برادری کے پریم کوہلی نے بہادری اور انسانیت کے سبق کو یاد رکھا اور مذہب کے نام پر قتل کے بعد نعش کو جلانے کی بے حرمتی کرنے والے ہجوم سے بچانے کے لئے اسے اپنے کندھے پر لادے ہجوم سےبچانے کی کوشش کرتارہا۔ لیکن نام نہاد مسلمانوں کے سر پر جنون اور خون سوار رہا۔ اسلام میں مردے کو جلانے اور اس کی بے حرمتی کرنے کی ممانعت ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے اس بات کا خیال ہمیں رکھنا چاہیے لیکن اس ہندو نوجوان نے انسانیت کو یاد رکھا۔
پریم کوہلی کی اس بہادری کو دیکھتے ہوئے انسانیت کا درد رکھنے والے کچھ لوگوں نے ڈاکٹر شاہ نواز کا نمازہ جنازہ کا انتظام کیا اور لوگوں کو بھی نمازہ جنازہ کے لئے جمع کیا۔میرپور خاص میں ہونے والے اس واقعے کے بعد اب تک کی تحقیق اور رپورٹس کے مطابق پولیس اہلکار معطل اور گرفتار ہوئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ سطح کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔ تاکہ آئندہ مذہب کے نام پر کسی بے گناہ کے خون سے اس دھرتی کو رنگنے سے بچایا جاسکے۔ مذہبی شدت پسندی کا شکار صرف پاکستان کی عام عوام نہیں بلکہ ملک کے مذہبی اسکالرز بھی ان میں شامل ہیں۔
جن میں نامور مذہبی اسکالر مفتی طارق مسعود بھی شامل ہو چکے ہیں، وہ ایک معروف پاکستانی عالم دین اور مفتی ہیں جو اپنے علمی دروس اور ازدواجی مسائل پر رہنمائی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے معروف مدارس میں تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں اپنے علمی و فکری خدمات کے ذریعے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ ان کی تعلیمات خاص طور پر نکاح، ازدواجی زندگی اور اسلامی معاشرتی اصولوں پر مرکوز ہیں اور وہ عوامی اجتماعات، ٹی وی شوز، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اپنی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
گذشتہ کئی روز سے ان پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔انھوں نے اپنے کسی مذہبی تبلیغ میں بات کی تھی جسے دوسرے معنوں میں سمجھا گیا۔جس کی مفتی صاحب نے بارہا معافی مانگی ہے اور اس بات کی وضاحت بھی کی ہے لیکن پھر بھی شدت پسند گروہ ان کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں جو کہ ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔
اللہ تعالی بھی گناہوں کی معافی مانگنے والے کو معاف کردیتا ہے۔چاہے گناہ انجانے میں ہو یا جان بوجھ کر وہ معاف کرنے والا ہے، بس دل سے معافی مانگی گئی ہو۔
ہمارے ملک کے لئے یہ سب لمحہ فکریہ ہے، ہم اس طرح کے فرقہ وارانہ مذہبی فسادات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اگر ہمارا قانون اسلامی طرز پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے ، مکمل تحقیق اور ثبوت کے ساتھ تب ہی اس شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے نجات مل سکتی ہے۔