اساتذہ کا عالمی دن، 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے، ہمارے مستقبل کی تشکیل میں اساتذہ کرام کے انمول کردار کو عزت دینے اور ان کی گراں قدر خدمات پہ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہ دن مقرر کیا گیا ہے۔ استاد محض کتابوں کا رٹہ لگوانے والے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ وہ اخلاقی، فکری اور سماجی ترقی کے معمار ہیں۔ اس سال اساتذہ کے عالمی دن کی تھیم استاتذہ کی آوازوں کو پہچاننے، ان کی تعریف کرنے اور تعلیم کے لیے ایک نئے سماجی معاہدے کے لیے کام کرنے کے بارے میں ہے۔ استاتذہ کی آواز میں ہی تعلیمی معیار اور اخلاقی تربیت کا راز چھپا ہوتا ہے۔
تعلیمی معیار اور اخلاقی تربیت میں اساتذہ کا کردار:
استاتذہ کرام کو تاریخی طور پر معاشرے کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا اثر کلاس روم سے باہر تک پھیلا ہوا ہے، استاد نہ صرف فکری صلاحیتوں کو بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی ڈھالتا ہے۔ ایک استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے، کہ طلباء تعلیمی لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے ایک مضبوط اخلاقی بنیاد بھی رکھیں۔ اعلیٰ معیار کی تعلیم، تربیت اور اخلاقی ترقی دونوں ضروری ہیں۔ تاہم، موجودہ کے دور کے تعلیمی نظام تیزی سے درجات کی بڑھوتری، درجہ بندی، اور ملازمت کے لیے ڈگریوں کے انبار لگانے پر متعین ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جو کردار سازی، اخلاقی تربیت کے اہم پہلو کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔
ماضی میں اساتذہ کو رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جو دیانتداری، مہربانی اور نظم و ضبط جیسی اقدار کو برقرار رکھتے تھے۔ تاہم، آج، تعلیمی معیارات(برائے نام ڈگریوں) کو پورا کرنے کا دباؤ اکثر اخلاقی اقدار کی تعلیم و تربیت کا خلاء چھوڑ رہا ہے۔ ایک جامع تعلیم وہ ہے، جس میں ایمان داری، ہمدردی، مثالی اخلاق رویہ اور ذمہ داری جیسی اقدار شامل ہوں، ایسی تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ آج ہمارے اسکول ، کالجز ، یونیورسٹیوں میں اخلاقی اقدار کی کمی نظر آ رہی ہے، مخلوط نظام تعلیم نے اسے مزید پیچیدہ کر کے نسل نو کو فحاشی و عریانی کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے۔ بچوں سے لے کر استاتذہ کرام اور پروفیسرز سے چانسلرز تک ہر کوئی سوشل میڈیا کی رنگینیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ استاتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مثالی کردار بنا کر پیش کریں اور اپنی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کریں، تاکہ اچھے تعلیم یافتہ اور مثالی کردار کے نوجوان پیدا ہوں۔
بڑھتی ہوئی تعلیمی سطح کے درمیان اخلاقی اور تہذیبی معیارات میں گراوٹ: یہ ایک سنگین تضاد ہے کہ جہاں تعلیم تک رسائی بہتر ہو رہی ہے اور تدریسی طریقوں میں تکنیکی ترقی ہو رہی ہے، وہیں اخلاقی اور تہذیبی معیارات میں بھی اسی طرح گراوٹ نظر آتی ہے۔ یہاں استاتذہ کو ایک مخمصے کا سامنا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں تعلیمی معیار کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں اور اخلاقی اقدار کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں جو سطحی کامیابیوں کو گہری، تنقیدی سوچ سے زیادہ اہمیت دیتا ہے؟
آج، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں پہلے سے کہیں زیادہ گریجویٹ پیدا کر رہی ہیں، پھر بھی معاشرے کو ایسے اختراعی مفکرین، موجد اور لیڈران کی کمی کا سامنا ہے جو معاشرے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اگر کہیں تکنیکی مہارت میں قابلیت بڑھ رہی ہے، تو وہیں دوسری طرف اخلاقی اور اخلاقی قابلیت میں کمی آرہی ہے۔جو کہ تشویشناک ہے، کیونکہ حقیقی تہذیبی تمدن اور نظریات تب ہی ترقی کرتی ہیں۔ جب تعلیم اپنے تہذیب و تمدن ، ثقافت اور نظریات کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں، تنقیدی سوچ اور اعلیٰ اخلاقی معیارات کو فروغ دیتی ہے۔ یقیناً یہ ذمہ داری بھی استاتذہ کرام کی ہے کہ وہ اس عدم توازن کے بارے میں بھی سوچیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی جہتوں کے ہر پہلو کو بحال کرنے کے لیے محنت کریں۔
تعلیمی ادارے اور کاروبار: جدید تعلیم میں سب سے زیادہ تشویشناک رجحانات میں سے ایک تعلیمی اداروں کی کمرشلائزیشن ہے، نہ صرف ادارے بلکہ تمام میٹریل بھی کمرشل ہے جس میں پہلے سے تیار کردہ پریکٹیکل کاپیاں، امتحانات کی تیاری کے لیے پانچ سالہ پرچہ جات کا حل بازاروں میں کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں۔ تعلیم کا یہ تجارتی انداز اس پریشان کن حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے استاتذہ کرام و طلباء شارٹ کٹ کا زیادہ رحجان رکھتے ہیں۔ اور گہری و مؤثر تعلیم کے بارے میں دلچسپی کم ہو چکی ہے۔ قوم کے معمار اور مستقبل طلباء تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ کو کمزور کرتے ہوئے ان تیار وسائل پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔
ایسے معاملات میں ذمہ دار کہاں ہے؟ اس سے نمٹنے کے لیے استاتذہ کرام کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ بدقسمتی سے، اس طرح کے مواد پر انحصار کرنا اجتماعی تنزلی کا ثبوت ہے، یہ بات بھی یقینی ہے کہ بعض صورتوں میں اساتذہ کی جانب سے مشغولیت کا بہانہ ہے۔ جب طلباء پہلے سے بنی ہوئی کاپیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انہیں آزادانہ طور پر سوچنے کا چیلنج نہیں دیا جاتا یا خیالات کو گہرائی سے دیکھنے ، نئی دریافت کرنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ یہ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ آج ہم اپنے تعلیمی اداروں سے خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بہت کم سائنس دانوں ، اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز ، بہترین انجینئر اور اختراع کاروں کو ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اساتذہ کو ایک فعال کردار ادا کرنے اور ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جہاں طلباء کو تیار کاپیوں میں لکھے ہوئے حقائق اور فارمولوں کو یاد کرنے کے بجائے تخلیقی اور تنقیدی انداز میں سوچنے کی ترغیب دی جائے۔
استاد اور طالب علم کے درمیان بہترین ہم آہنگی: تعلیم کو حقیقی معنوں میں تبدیل کرنے کے لیے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مضبوط ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ یہ رشتہ اعتماد، باہمی احترام اور فعال مشغولیت پر استوار ہے۔ طلباء اس وقت بہترین سیکھتے ہیں جب وہ اپنے اساتذہ کی طرف سے سمجھنے ، قابل قدر عزت افزائی، اور رہنمائی کو محسوس کرتے ہیں۔ استاتذہ کرام کو چاہیے، طلباء کے خدشات کو سنیں، ان کے عزائم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اور انہیں تعلیمی اور اخلاقی کامیابی کی طرف رہنمائی کریں۔
جدید دور کی ٹیکنالوجی بھی استاد اور طالب علم کے ہم آہنگی کو بڑھانے کے کئی طریقے پیش کرتی ہے۔ انٹرایکٹو تدریسی طریقے، ذاتی نوعیت کی تعلیم، اور مسلسل فیڈ بیک، اساتذہ کو طلباء کے ساتھ گہری سطح پر جڑنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، اساتذہ کو ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں طلباء سوال پوچھنے، شکوک و شبہات کا اظہار کرنے اور بامعنی گفتگو میں مشغول ہونے میں آسانی محسوس کریں۔ اس طرح کی مصروفیت استاد اور طالب علم کے درمیان صحت مند اور بہترین تعلقات کو پروان چڑھاتی ہے، جو تعلیمی اور اخلاقی ترقی دونوں کی بنیاد ہے۔