جب ناچ اور گانا سرکاری سطح پر ترجیح بن جائے

دنیا کی تاریخ میں قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہمیشہ ان کی فکری،معاشی، علمی، سائنسی، معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں پر رہا ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے علمی ترقی، معاشرتی استحکام اور انصاف کو اپنا مقصد بنایا، دنیا میں ہمیشہ کامیاب رہیں۔ لیکن جب قومیں اپنے اصل مقاصد سے ہٹ کر ناچ گانے اور عیش و عشرت میں مگن ہو گئیں، تو ان کا زوال یقینی ہوگیا۔ یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں بارہا دہرائی جا چکی ہے۔

اسلام تفریح اور خوشی کے مواقع سے انکار نہیں کرتا۔ ناچنا اور گانا اپنی حدود میں جائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ یہ انسان کی روحانی اور فکری ترقی میں خلل نہ ڈالے۔ تاہم، جب یہ ایک قوم کا اجتماعی عمل بن جائے، خصوصاً سرکاری سطح پر، اور ہر سنجیدہ تقریب میں ناچ گانے کو لازمی سمجھا جانے لگے، تو یہ زوال کی طرف واضح قدم ہوتا ہے۔

عیش و عشرت سے زوال تک اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی عظیم قومیں جنہوں نے دنیا میں اہم مقام حاصل کیا تھا، وہ اپنے زوال کی طرف اس وقت گئیں جب ان کے حکمران اور عوام دنیاوی عیش و عشرت اور تفریح میں محو ہوگئے۔ مسلم اندلس (اسپین) کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں ایک عظیم تہذیب کے زوال کی اہم وجہ وہاں کے حکمرانوں اور عوام کا تفریح، ناچ گانے اور عیش و عشرت کی طرف رجحان تھا۔ جب قومیں اپنی فکری اور علمی ترقی سے ہٹ کر محض تفریح اور بے مقصد مشاغل میں مگن ہوجاتی ہیں، تو وہ اپنی بنیادیں کھو دیتی ہیں۔ عظیم قومیں اپنے آپ کو ناچ گانوں اور کبوتر اڑانے تک محدود نہیں رکھتیں۔

گلگت بلتستان میں ناچ گانے کا فروغ بڑے پیمانے پر دیا جارہا ہے، یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ حالیہ سالوں میں گلگت بلتستان میں کئی سرکاری تقریبات اور سنجیدہ پروگراموں میں ناچ گانے کو لازمی جزو سمجھا جانے لگا ہے۔ سرکاری ملازمین اور وزراء کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ عوامی یا سرکاری تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے ناچیں اور خوشی منائیں۔ سرکاری عمال کے ناچ کی معیاری ویڈیو تیار کروائی جاتیں ہیں اور بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر، ان کو وائرل کروائی جاتیں ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان محفلوں میں بیٹھے بڑے بڑے اساتذہ، پروفیسر اور نونہالان قوم کو تعلیم و تربیت سے مزین کرنے والے بھی سرور و مستی میں رقصاں نظر آتے ہیں اور اکثر تعلیمی اداروں میں سماجی و سرکاری رہنماؤں کو بلاکر ناچ گانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ علمی و سماجی موضوعات پر ہونے والی تقریبات کی بھی وہ تقاریر اور مکالمے وائرل نہیں ہوتیں جن کے لئے یہ تقاریب منعقد کی گئی تھی، بلکہ ناچ گانے اور تھرکنے والی ویڈیوز منٹوں میں ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ ۔

یہ رجحان نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا باعث ہے بلکہ قوم کی فکری پستی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک اور گلگت بلتستان کو فکری اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے، حکومتی سطح پر ناچ گانے کا فروغ قوم کو ایک خطرناک سمت میں لے جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو قوم نے اسمبلیوں میں بھیجا ہے اور جن کو عوامی ٹیکس اور خزانہ سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات دی جاتیں ہیں وہ قوم کی ڈوبی کشتی کو بچانے کی فکر کرنے کی بجائے ناچ گانوں کی محفلیں منعقد کرکے مختلف سروں پت تھرک رہے ہیں ۔

اسلام ہمیں کام اور ذمہ داری کے بارے میں بہت واضح ہدایات دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں کئی مواقع پر انسان کی ذمہ داری اور محنت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم حکمران اپنے عہد کے دوران اپنی قوم کو فکری، معاشرتی اور علمی ترقی کی طرف لے گئے۔ اگر وہ بھی ناچ گانے کو اہمیت دیتے اور اپنی قوم کو تفریح کی طرف راغب کرتے تو اسلامی تاریخ کا رخ مختلف ہوتا۔

گلگت بلتستان کی سرکاری تقریبات میں سنجیدگی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔گلگت بلتستان میں سرکاری تقریبات کا اصل مقصد قوم کی فکری اور معاشرتی ترقی ہونا چاہیے، لیکن جب ان تقریبات میں ناچ گانے کو سرکاری سطح پر رواج دیا جاتا ہے، تو یہ قوم کو ایک بے مقصد تفریح میں مشغول کرنے کے مترادف ہے۔ وزراء اور ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنی توانائیاں قوم کی خدمت، تعلیم، اور معاشرتی فلاح و بہبود پر مرکوز کریں، نہ کہ عوامی تقریبات میں ناچنے پر۔

کامیاب قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنی ترجیحات کو درست رکھتی ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سخت محنت کرتی ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز ناچ گانے میں نہیں، بلکہ علم، فکر، انصاف اور ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے میں ہے۔ اگر ہم اپنی قوم اور علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں تفریح کو محدود رکھنا ہوگا اور اپنی توجہ ان امور پر مرکوز کرنی ہوگی جو قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔

ناچ گانے کو سرکاری تقریبات کا حصہ بنانا قوم کے زوال کی طرف قدم بڑھانے کے مترادف ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے، ہمیں اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور ان سرگرمیوں کو ترک کرنا ہوگا جو قوم کی فکری اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ناچ گانے کو اکثر غذر اور ہنزہ کے لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے ہمارے ہنزائی اور غذری بھائی بھی کبھی کبھار سرکاری سطح پر منعقد ہونے والے غیر سنجیدہ اور بیہودہ ناچ گانے کو اپنے کلچر کا حصہ بتاتے ہوئے اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ یہ سوچ بنیادی طور پر غلط اور تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔

یاد رہے کہ غذر اور ہنزہ کے لوگوں کی ثقافت اور روایات نہایت شاندار اور قابل فخر ہیں۔ ان کی مہمان نوازی، بہادری، اور تہذیب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ ان علاقوں کا ثقافتی ورثہ عظیم اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جو کسی صورت میں محض ناچ گانے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ناچ گانا ایک وقتی خوشی کا اظہار ہو سکتا ہے، لیکن اسے ان علاقوں کی تہذیب و تمدن کا نمائندہ قرار دینا ایک سطحی اور غیر معقول بات ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خوشی کے مواقع پر گلگت بلتستان کے تمام علاقوں کے لوگ اپنی روایات کے مطابق خوشی مناتے ہیں، جس میں رقص و سرود بھی شامل ہوتا ہے۔ تاہم، اسے محض چند مخصوص علاقوں یا لوگوں سے جوڑنا اور ان کی ثقافت کو صرف اسی بنیاد پر محدود کرنا انصاف نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان علاقوں کے عظیم ثقافتی ورثے کو درست تناظر میں سمجھیں اور اسے محض سطحی تفریحات سے منسوب کرنے کی بجائے اس کی گہرائی اور عظمت کا احترام کریں۔ غذر اور ہنزہ کے لوگوں کا کلچر صرف رقص و موسیقی پر مبنی نہیں بلکہ اس میں علم، ادب، مہمان نوازی، اور اجتماعی بہبود جیسے اعلیٰ اقدار شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ ساتھ جدید تقاضوں کا بھی ادراک رکھتے ہیں اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ناچ گانا، جیسے بھی ہو، کسی علاقے کی مجموعی شناخت کو محدود نہیں کرسکتا۔ جب ہم کسی قوم یا علاقے کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں ان کی پوری تاریخ، روایات، اور معاشرتی خدمات کا جائزہ لینا چاہیے، نہ کہ ان کی تفریحی سرگرمیوں کو ان کی پہچان بنانا چاہیے۔

یہ بہت اہم ہے کہ سرکاری سطح پر منعقد ہونے والی تقریبات میں بھی اسی سنجیدگی اور وقار کا مظاہرہ کیا جائے جو ان علاقوں کے لوگوں کی ثقافت کا حصہ ہے۔ ناچ گانے کو گلگت بلتستان یا کسی بھی علاقے کے عظیم کلچر کا نمائندہ قرار دینا انتہائی غلط فہمی ہے اور اس کو فروغ دینا ان علاقوں کی اصل ثقافت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

غذر اور ہنزہ کے لوگ اپنی روایات، علم و دانش، اور فکری ترقی کی بدولت ہمیشہ قابل احترام رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی ثقافت کو اس انداز میں پیش کریں جس سے ان کی عظمت اور تاریخی ورثہ صحیح طور پر اجاگر ہو، اور اس میں وہ عناصر شامل ہوں جو ان کے وقار اور سماجی خدمات کو نمایاں کریں، نہ کہ محض ناچ گانے جیسی سطحی سرگرمیوں کو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے