جب بھی کسی ریاست کے ادارے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور انانیت کو قومی ذمہ داریوں اور عوامی مسائل پر فوقیت دینے لگیں، تو اس کے نتائج ناگزیر طور پر تباہ کن ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے حالات میں نہ صرف حکومتی ڈھانچہ مفلوج ہوتا ہے بلکہ عوام کے حقوق پامال ہو کر اضطراب و بے چینی کا شکار ہوتے ہیں۔ آج، گلگت بلتستان کی پُرپیچ اور حساس سرزمین، بالخصوص ضلع دیامر، اسی اداراتی خودغرضی کا شکار ہے، جہاں بیوروکریسی کی رسہ کشی اور ذاتی چپقلش نے عوامی خدمت کے جذبے کو زنگ آلود کر دیا ہے، جس کے سبب عوامی مسائل سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کی چیخیں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہیں اور ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں، جب کہ عوامی اعتماد ریاستی اداروں سے روز بروز اُٹھتا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان، جو اپنی جغرافیائی، سیاسی، سماجی اور مذہبی حیثیت کی بنا پر نہایت حساس اور اہم خطہ ہے، ملکی استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خطے کی سٹریٹیجک حیثیت نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی مجموعی سلامتی کے لیے اہم ہے۔ اس اہمیت کا مرکز ضلع دیامر، جہاں ملک کا اہم اور میگا منصوبہ دیامر بھاشہ ڈیم تعمیر ہو رہا ہے، ایک سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ بیوروکریسی کی آپسی لڑائیاں اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے نہ صرف عوام کو مشکلات میں مبتلا کر رہے ہیں بلکہ اس میگا پراجیکٹ کی تکمیل کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
دیامر بھاشہ ڈیم، پاکستان کے مستقبل کی روشن امید اور توانائی کے مسئلے کا دیرپا حل ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے بلکہ اس سے گلگت بلتستان کے عوام کی زندگیوں میں بھی خوشحالی کے نئے در وا ہوں گے۔ مگر افسوس، آج بیوروکریسی نے ذاتی اختلافات اور زد و انا کی بنیاد پر اس اہم منصوبے کے متاثرین اور ان کے مسائل کو نظرانداز کر دیا ہے۔۔۔
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا کے حالیہ غلط فیصلوں نے متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم کو سخت اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان مظلوم متاثرین کو جنہوں نے اپنے وطن کے لیے سب کچھ قربان کر دیا ہے کو شاہراہِ قراقرم کے کنارے احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ان متاثرین کا دکھ اس بات کا غماز ہے کہ ریاستی مشینری نے ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زمینیں، گھر، ثقافت اور تاریخ اس ڈیم کے لیے قربان کیں، آج ریاستی بے حسی کے باعث سڑکوں پر اپنے حقوق کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جڑیں اپنی ہی سرزمین پر دفن کیں اور اپنے وطن کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا۔
آج، جب متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم مایوس ہوکر اپنے جائز مطالبات کے حق میں ڈیم سائٹ کی جانب مارچ کر رہے ہیں، تو صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔اگر خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے یا متاثرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوتا ہے، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا یہ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نہیں ہوں گے، جو اپنی ذاتی ضد اور انانیت کو عوامی مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں؟ کیا ان کی غلط پالیسیوں اور خودغرض فیصلوں نے اس انتہائی نازک صورتحال کو جنم نہیں دیا؟
دیامر جیسے حساس علاقے میں عوامی جذبات اور مسائل کو نظرانداز کرنا نہ صرف ایک بڑی حکومتی ناکامی ہوگی بلکہ اس سے دشمن عناصر کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ گلگت بلتستان کی حساس نوعیت اور بیرونی قوتوں کی یہاں پر نظر گڑی ہوئی ہے، اور اگر حکومت اور بیوروکریسی نے اپنے رویے کو درست نہ کیا تو یہ صورتحال نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطرناک ثابت ہوگی بلکہ ریاست کی مجموعی سالمیت کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
بیوروکریسی اور واپڈا حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی لڑائیاں دفتروں کی بجائے اپنے گھروں میں لڑیں اور عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔ دیامر بھاشہ ڈیم جیسے قومی منصوبے کے متاثرین کے مسائل کو حل کرنا فوری اور لازمی ہے تاکہ اس منصوبے کو وقت پر مکمل کیا جا سکے اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ حکام بالا کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
آخر میں دعا ہے کہ خدا اس ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ہمارے حکام کو عقل و شعور دے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھا سکیں اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنا سکیں۔ عوامی اعتماد بحال کرنا اور ان کے مسائل حل کرنا ریاستی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے، اور اگر اس میں تاخیر کی گئی تو اس کے سنگین نتائج سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔