یہ خط !
میری اس دوست کے نام … جس کی 14 سال کی عمر کے بعد آہستہ آہستہ آنکھوں کی روشنی ختم ہوتی گئی، اور اب تقریبا مکمل اختتام پہ ہے. مگر اس نے آنکھوں کی محرومی کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہ بننے دیا اور آج ایم فل کی طالبہ ہے …!
ثنا !
جب کوئی نعمت ملی ہی نہ ہو، اسکا مزہ چکھا ہی نہ ہو، تو پھر اسکا غم، فقط غم ہی رہتا ہے. روگ جاں نہیں بنتا .
لیکن ، جب اک نعمت کو پایا ہو ، اس سے خوشیاں دیکھی ہوں ، اس نعمت کی رنگینیاں دیکھی ہوں ، تو پھر اس کے چلے جانے سے غم کے ساتھ روگ بھی لگ جاتا ہے !!!
تمہارے پاس یہ جو دو خوبصورت آنکھیں ہیں، بے اختیار دیکھ کہ تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے، لیکن تم سے جواب میں جب یہ سننا پڑے کہ
"یہ دو آنکھیں ایسی ہی ہیں جیسے ایک گھر میں خوبصورت لیمپ پڑا ہو نہایت دلکش، مگر وہ روشنی نہ دے سکے تو اسکی کیا اہمیت رہ جاتی ہے صدف ؟ گھر کے کسی کونے میں سجاوٹ ہی کی جا سکتی ہے ، اب ان دو آنکھوں کی خوبصورتی کا کیا کیا جائے ، جب انکی روشنی ہی چھن گئی ہو ، جب یہ اندھیرے اور روشنی میں فرق کرنا ہی بھول گئی ہوں، تو مجھے اسکی تعریف سے کوئی خوشی کیونکر ہو ! ”
ثنا ___ میں نے تمہارے ساتھ جینا سیکھا تو مجھے قدم قدم پہ احساس ہوا کہ محرومیوں کے ساتھ کیسے جیا جاتا ہے… میں نے سیکھا سمجھوتہ کرنا کسے کہتے ہیں .. میں تمھارے خواب سنتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ تاریک آنکھوں سے اتنے روشن خواب کیسے دیکھے جا سکتے ہیں …. لیکن جب ان خوابوں کو پورا ہوتے دیکھتی ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ تعبیروں کے لئے، آنکھوں کی روشنی سے زیادہ جذبوں اور عزائم کی روشنی کافی ہوتی ہے.
تمھارے پاؤں کا انگوٹھا اکثر ہی کسی نہ کسی چیز سے زخمی رہتا ہے کبھی راہ میں پڑی کسی لوہے کی کرسی سے یا لکڑی کے بیڈ سے ٹھوکر لگ جاتی ہے ___
دکھ تو ہر بار ہی ہوا ، مگر وہ دن جب میری کچھ دوستیں آئی مجھ سے ملنے ، تم اپنی جگہ سے اٹھ کہ چلی تو راستے میں پڑی کرسی تمھیں دکھائی نہ دی اور تم اس کے کونے سے بری طرح ٹکرا گئی. ___ جب میں پرشانی سے تمہارے لئے آگے کو بڑھی ، تو مگر تم نے اپنی تکلیف پہ پردہ ڈال دیا اور ہنس کہ کہا، ‘کچھ نہیں ہوا بھئی …سب ٹھیک ہے …’ مگر کچھ ہی دیر بعد میری نظر پڑی تو انگھوٹھے پہ لگے زخم سے بہتا خون تمہاری تکلیف کی روداد سنا رہا تھا، وہ بتا رہا تھا کہ تم نے احساس محرومی کو سب پہ عیاں نہ کرنے کے واسطے خود کو نارمل کر لیا تھا. مگر یہ زخم ، جو تمھیں صرف محسوس ہو رہا تھا ، مگر دکھائی ، مجھے دے رہا تھا. مگر میں کیسے بتاتی کہ جس درد کو تم چھپا رہی ہو اس نے تمہاری محرومی کی سفید پوشی کو داغ دار کر دیا . میں نے سوچا تمھیں بتاؤں پھر خاموش ہو گئی کہ اس سے تکلیف دوگنی ہو جائے گی ، ایک تو یہ غم کہ کرسی نہ دکھی اور دوسرا یہ کہ اس نے جو زخم لگایا وہ سب کو نظر آگیا جبکہ میں نہ دیکھ سکی.
ثنا ، ہم روزمرہ ایسے ایسے جملے بولتے ہیں جو کہتے ہوئے ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ کیا کہہ دیا. اور ایسے جملے بول کہ ہم تم سے معذرت بھی نہ کر سکتے.
اہ ، وہ دن اور وہ جملہ …. کہ جب سدرہ نے مدیحہ کو کپ پکڑاتے ہوئے گرا دیا تو مدیحہ نے غصے میں اسے کہہ دیا، اندھی ہو کیا ؟ ٹھیک سے پکڑنا تھا نا.
پاس میں اور تم بیٹھے ہوئے تھے ، یہ سن کہ تمہارے چہرے کا رنگ ایسے سرخ ہوا کہ ابھی ابل کے باہر آجائے گا. حالت بھانپ لینے پہ سدرہ انتہائی شرمندہ سی ہو گئی اور فورا بات بدل لی، تم ہنس دی. مگر وہ کیا کہتے ہیں نا کہ
کہنے والے کہہ جاتے ہیں _____ سننے والے کمال کرتے ہیں !
راستے میں جاتے ہوئے کسی خاتون کی تم سے ٹکر ہو گئی، اس نے سنمبھلتے ہوئے بلا تامل کہہ دیا، ارے ….. دکھتا نہیں ہے کیا ؟
اور تم نے چند لمحے رک کر، سخت سے لہجے میں جواب دیا ، "نہیں ”
اس ‘نہیں ‘ میں بے بسی کی آگ بھی شامل تھی ___ ایسی آگ جو اس جہاں کی ساری محرومیوں کو جھلسا کہ رکھ دے.
ان ساری تکالیف میں، میں نے تمہیں پہلی بار پھوٹ پھوٹ کہ روتا ہواتب دیکھا، جب انور مسعود (مزاحیہ شاعر) کی بہو، صائمہ عمار کی وفات ہوئی. تم نے کہا ، مجھ پہ احسان کرو مجھے اسکی میت تک لے جاؤ وہ میری مخلص دوست اور رہنما تھیں، ہم تمھیں ساتھ لے کر جنازے کی جگہ پہ پہنچے تو معلوم ہوا وہ بھی نا بینا تھی. تم سے ملی تھی تو تمہیں آنکھوں کی روشنی کے بجائے دل کی روشنی سے جینے کی تسلی دے کر گئی تھی. تب سمجھ آئی کہ تم اتنی آرزدہ کیوں ہوئی. اس کی وفات پہ تمھیں روتا دیکھ کہ سمجھ آئی کہ ہمدرد کون ہوتا ہے. آج تمہاری ہمدرد چل بسی تو تمہارا ضبط بھی جواب دے گیا. تم نے اس کے والد سے کہا مجھے زندگی میں کچھ کر گزرنے کی خواہش صائمہ عمار سے ملی ہے. اس نے نابینا طلبہ کے لئے لائبریری بنا رکھی تھی. اور یہ کام وہی کر سکتی تھی کیونکہ ایک محروم ہی دوسرے محروم کا درد جان سکتا ہے. اس کے جنازے پہ ایک کثیر تعداد نا بینا لوگوں کی تھی اور جیسے وہ بلک بلک کہ رو رہے تھے کوئی اپنا بھی ایسے نہ رویا. اسے کہتے ہیں درد شناسی !
ثنا .. تمھیں زندگی میں سب سے بڑھ کہ کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو وہ یہ کہ کوئی تمہاری محرومی پہ تم سے ہمدردی کرے. مجھے پتہ ہے اگر تم یہ خط پڑھو گی تو تمہارا ضبط جواب دے جائے گا. مگر میں کیا کروں مجھے خود کو اور اپنے عزیزوں کو بھی تو احساس دلانا ہے کہ ہمارے پاس کیسی نعمت ہے. ایسی نعمت کہ جس کے نعمت ہونے کا احساس بھی ہمارے اندر سے مٹ چکا ہے !