27 دسمبر کی وہ شام آج بھی یاد ہے، خبر ملی ’ بی بی کا قتل ہو گیا‘ ۔۔۔۔اور دل لہو سے بھر گیا۔میں کبھی بھی بے نظیر بھٹو کا مداح نہیں رہا تھا لیکن یہ خبر سن کر ایسے لگا جیسے دھوپ رتوں میں ایک سائباں تھا جو نہ رہا۔پیپلز پارٹی کے احباب کا یہ نعرہ کہ’’ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر ‘‘ میرے نزدیک تفنن طبع سے زیادہ کچھ نہیں تھا لیکن اس شام معلوم ہوا اس نعرے میں کتنی سچائی تھی۔یہ کچھ چھن جانے کا احساس نہ تھا، یہ سر سے کسی بڑے کا ہاتھ اٹھ جانے کی محرومی تھی۔
کیسی بلند بخت بیٹی تھی، اپنے لہو سے ان دلوں کو بھی موم کر گئی جنہوں نے ہمیشہ اس کی نفرت میں دھڑکنا سیکھا تھا۔میرا تعلق اس نسل سے ہے جس کی رگوں میں صالحین نے بھٹو خاندان سے نفرت کا زہر انڈیلا تھا ،کتنوں کو یاد ہو گا جب آئی جے آئی بنی تو نیک روحوں نے کیسے کیسے ترانے تخلیق کر ڈالے۔’’ بی بی جی کھیڑا جان دیو، جیہڑا دینوں مذہبوں ٹھندا ایہہ، جیہڑا غنڈہ ایہہ مشٹنڈا ایہہ ، اوہدے ہتھ ترنگا جھندا ایہہ‘‘۔ایک ’ مولوی پاک‘ سٹیج پر لٹو کی مانند گھوم گھوم کر کہتے : ’’ بد بخت بخت بد بخت بخت لم ڈھینگ نظیراں ‘‘۔۔۔اور پنڈال میں کھڑے صالحین پوری غیرت ایمانی سے چلا اٹھتے :’’ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ‘‘۔نفرت کے اس سیلاب میں ہم پل کر جوان ہوئے ۔
لڑکپن کی وہ یادیں آج بھی تازہ ہیں، جلسوں میں بھٹو کی اس بیٹی پرایسے رکیک حملے کیے جاتے کہ ابلیس بھی پناہ مانگے لیکن تقوی کے گھونسلے میں بیٹھے ہم نومولود صالحین کا دعوی پھر بھی یہی رہا کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کا شرافت اور اخلاقیات سے کیا تعلق؟اس کے جملہ حقوق تو صالحین کے نام محفوظ ہیں۔
بے نظیر پر عائد فرد جرم کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انہوں نے کشمیر کاز سے غداری کی۔جن کی یہ فردِ جرم تھی وہی منصف بھی تھے ۔چنانچہ فرد جرم کے مندرجات ہی فیصلہ قرار پاتے۔بی بی کو مٹی میں دفن ہوئے چند برس بیت گئے تو ایک روز امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر جناب عبد الرشید ترابی کا ایک مضمون شائع ہوتا ہے۔موصوف اس مضمون میں مسئلہ کشمیر کے لیے بے نظیر بھٹو کی خدمات گنواتے ہیں اور گنواتے ہی چلے جاتے ہیں۔شاید داعیانِ حق کو حق کے اظہار کے لیے بھٹو کی بیٹی کے مرنے کا انتظار تھا۔مقبوضہ کشمیر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما جناب غلام محمد صفی ایک روز میرے ٹاک شو میں مدعو تھے میں نے کشمیر کے حوالے سے بے نظیر بھٹو کے کردار پر بات چھیڑی تو سمیٹنا مشکل ہو گئی۔
یادوں کا ایک ہجوم تھا اور صفی صاحب اس میں بے اختیار بہے چلے جارہے تھے:بے نظیر بھٹو میں بہت ویژن تھا، انہوں نے کشمیر کاز کے لیے بڑا کام کیا، وہ ہمیں بھی بتاتیں کہ یہ کردو وہ کر دو، او آئی سی میں کشمیر کو جس طرح انہوں نے اٹھایا حق ادا کر دیا،مسلم دنیا کے حکمرانوں کو خود قائل کرتی رہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ بولے جا رہے تھے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا اور سوچے جا رہا تھا کہ کسی کی زندگی میں ہم انصاف کے ساتھ معاملہ کیوں نہیں کرتے۔سیاسی عصبیتیں اظہار حق پر غالب کیوں آ جاتی ہیں؟
ایک نفسیاتی گرہ ہے جس کے ہم اسیر ہو چکے ہیں۔اب ہماری افتاد طبع مان کر نہیں دیتی کہ کوئی جمہوری وزیر اعظم بھی محب وطن ہو سکتا ہے۔چنانچہ اب نریندر مودی پاکستان آتے ہیں تو نواز شریف کی حب الوطنی کا آملیٹ بنا دیا جاتا ہے۔پرویز مشرف اور یحیی خان جو مرضی کر لیں ان کی حب الوطنی ہر شک و شبہ سے بالاتر رہتی ہے لیکن جمہوری وزیر اعظم ایک قدم اٹھاتا ہے تو اس کی وطن دوستی کٹہرے میں کھڑی کر دی جاتی ہے۔کبھی تو سوچنا ہو گا یہ نفسیات کیسے تشکیل پائیں اور کیا ان سے نجات کی کوئی صورت ممکن ہے۔ایک انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔اس سے وابستگی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے خامیوں سے پاک قرار دے دیا جائے اور مخالفت کی مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے مجسمہ شر بنا دیا جائے۔بے نظیر بھٹو میں بھی بلاشبہ بہت سی خامیاں ہوں گی۔ان کا اقتدار بھی کبھی کسی معنوی تبدیلی کا باعث نہ بن سکا۔انہی کے دور اقتدار میں ان کے شوہر کو ’ ٹین پر سنٹ‘ کہا جاناشروع ہوا،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں کوئی خوبی نہ تھی۔شخصی مطالعہ معروضی ہونا چاہے۔خامیوں پر نقد اور خوبیوں کی تحسین۔