مغربی ممالک کی پبلشنگ انڈسٹری میں پرنٹ کے علاوہ آڈیو کی ایک متوازی دنیا موجود ہے۔ ہر اہم کتاب کتابی شکل کے ساتھ ساتھ صوتی روپ میں بھی ظاہر ہوتی ہے اور لوگ بڑے شوق سے آڈیو کتابیں خریدتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اردو میں اب تک ایسا کوئی سلسلہ موجود نہیں تھا، لیکن اب دہلی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر و تنقید نگار تصنیف حیدر اور ان کے ساتھیوں نے اردو کے ادبی ذخیرے کو صوتی شکل میں محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
اب تک وہ یوٹیوب پر ادبی دنیا نامی چینل پر سینکڑوں تحریریں اپ لوڈ کر چکے ہیں اور اس سلسلے کو بڑھا کر اردو ادب کی مستقل آڈیو لائبریری تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب تک انھوں نے جن مصنفین کی تخلیقات آڈیو کی شکل میں پیش کی ہیں ان میں مرزا غالب، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، مجید امجد، نیئر مسعود، اوپندر ناتھ اشک، سید محمد اشرف، وغیرہ شامل ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ادبی دنیا پر چند شاعروں کی تخلیقات ضرور موجود ہیں، لیکن ہماری زیادہ توجہ نثر پر مرکوز ہے کیوں کہ اردو شاعری تو مشاعروں کی شکل میں خاصی مقدار میں آن لائن مل جاتی ہے، لیکن کہانیاں نہیں ملتیں، یا جو ملتی ہیں ان کا معیار ناگفتہ بہ ہوتا ہے۔
تصنیف نے بتایا کہ شروع شروع میں ہمارے پاس کوئی سٹوڈیو نہیں تھا اس لیے ریکارڈنگ کے دوران اگر ‘باہر کسی گاڑی کا ہارن بجتا، یا اوپر سے کوئی ہوائی جہاز گڑگڑاتا ہوا گزرتا تو ہمیں ریکارڈنگ روک دینا پڑتی۔ اس کا علاج ہم نے اس طرح ڈھونڈ نکالا کہ راتوں کو بیٹھ کر ریکارڈنگ کرنی شروع کی۔’
تصنیف اور ان کی شریکِ کار فاطمہ خان بڑی محنت اور توجہ سے ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: ‘ہم پہلے کہانی کو ایک دفعہ پڑھتے ہیں، اس میں موجود ایسے الفاظ کو جو ہمارے لیے مشکل ہیں، نشان زد کرتے اور لغات میں ان کا تلفظ دیکھتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کاہلی میں لفظ کو اپنی مرضی سے پڑھنے کا جوا کھیل تو لیا، مگر بعد میں اس کو درست کرنے کے لیے پھر سے اس جملے کو ریکارڈ کرنے کے لیے اگلی رات کا انتظار کرنا پڑا۔’
ادبی دنیا کا اگلا منصوبہ یہ ہے کہ چند ماہ کے اندر اردو کے دو صفِ اول کے افسانہ نگاروں منٹو اور بیدی کی کلیات صوتی شکل میں فراہم کر دی جائے۔ اس کے علاوہ مجید امجد کی نظموں کی ریکارڈنگ بھی تیزی سے جاری ہے۔
تصنیف کا ایک اور منصوبہ یہ ہے کہ اردو کا آڈیو میگزین بھی شروع کیا جائے، جس میں مصنفین کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنی تخلیقات ریکارڈ کر کے بھیجیں اور انھیں ادبی دنیا پر شائع کیا جائے۔تصنیف کہتے ہیں کہ انڈیا میں اردو اپنے رسم الخط کی وجہ سے تعصب کا شکار ہے کہ کچھ لوگ اسے صرف ‘شیریں زبان’ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جب کہ دوسرے اسے محض مسلمانوں کی زبان سمجھ کر ہاتھ نہیں لگاتے۔
تصنیف کہتے ہیں: ‘ہم رسم الخط کے جھگڑوں سے آگے نکل کر زبان کو مقبول بنانا چاہتے ہیں اور اس کے ادب میں موجود ایسے پیغام کی تشہیر کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں جو کٹھ ملاؤں اور جٹادھاریوں دونوں کے ظلم و بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہی ہے۔’چنانچہ تصنیف نے صوتی زبان پیش کر کے رسم الخط کا جھگڑا ہی چکا دیا ہے۔
ہم نے ادبی دنیا سے پانچ کہانیاں ڈاؤن لوڈ کر کے گاڑی میں سفر کے دوران سنیں۔ تصنیف حیدر کی آواز کا ٹمبر بہت اچھا ہے اور وہ اپنے دعوے کے مطابق تلفظ کا خاص خیال رکھتے ہیں، تاہم ایک چیز کی کمی نظر آئی اور وہ ہے ایکسپریشن، کہ وہ تمام کہانی کو ایک ہی انداز میں پڑھتے ہیں۔اس کے مقابلے پر اگر انگریزی کی آڈیو بکس کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے پبلشر پروفیشنل صداکار استعمال کرتے ہیں جو کہانی پڑھتے نہیں، بلکہ بقول اپنے ‘پرفارم’ کرتے ہیں، جس میں ہر کردار کا الگ آہنگ و انداز پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک بات بھی کھٹکتی ہے کہ بعض کہانیوں کے پس منظر میں وہ پیانو کی آواز استعمال کرتے ہیں، جو کہانی سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود اس مصروف دنیا میں ’ادبی دنیا‘ کی بدولت گھر سے دفتر آتے اور جاتے ہوئے صرف ایک دن میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے منٹو، بیدی اور حسن منظر کی پانچ عمدہ کہانیاں سننے کو مل گئیں تو اور کیا چاہیے؟