ہر دو تین ہفتوں بعد یہ ہوائی اڑا دی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنایا جا رہا ہے یہ ہوائی یا تو سوشل میڈیا پر اڑائی جاتی ہے یا پھر الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر اتھارٹیز (ذمہ داران) کچھ گھنٹے یا دن خاموش گزار کر عوام کا رد عمل دیکھتے ہیں اور پھر بیان کی تردید کر دیتے ہیں اس دوران سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان اور کشمیر کے لوگوں میں گرما گرم بحث و مباحثے ہوتے ہیں ، اخباری بیان جاری کیے جاتے ہیں، پریس کانفرنسز اور ہنگامی اجلاسوں کی کال (بلانا) دی جاتی ہیں، اورپھر تردیدی بیان کے ساتھ ہی یہ سب بھی ختم ہو جاتا ہے اور سب باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔
یہاں سوال گلگت بلتستان کی جغرافیائی، تاریخی حیثیت کا ہے ۔ اس کی وہ حیثیت جو ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو تھی اور پھر وہ حیثیت جو اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۱ اپریل ۱۹۴۷ کو تھی، جس کو پاکستان اور ہندوستان دونوں نے اقوم متحدہ میں قبول کیا۔ پھر یہ سوال یہاں تنہا نہیں رہتا بلکہ ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی کے سوال کا ایک ذیلی سوال بن جاتا ہے کیوں کہ بڑا سوال تو بہرحال ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی کا ہی ہے۔
بارہا یہ سننے میں بھی آیا ہے کہ ’’گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا نہیں بلکہ مسئلہ ریاست جموں کشمیر کا ہے‘‘ ۔ یہ ایک ایسی رائے ہے جو ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی کے سوال کو منطقی انجام کے دھکیل رہی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ ایک عرصہ سے پاکستان کے سیاسی زعماء اس چیز پر زور دے رہے ہیں کہ ’’ مسئلہ کشمیر تقسیم ہندکا نامکمل ایجنڈا ہے‘‘ ۔مجھے بارہا اس غلط فہمی کا تجربہ ہوا ہے جب ایک طرف تو ریاست جموں کشمیر کے لیے تحریکیں چلانے والے، بین الاقوامی دورے کرنے والے تاریخ ریاست جموں کشمیر سے نابلد ہوتے ہیں تو دوسری طرف وہ گلگت بلتستان کو بالکل ایسے ہی پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں جیسے فاٹا ہے ، مسئلہ ان کے ہاں صرف یہ ہے کہ ناردرن ایریاز ’’گلگت بلتستان‘‘ کو آئینی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی یہ آئینی حیثیت کیوں نہیں حاصل ہو سکی ، پاکستان کے آئین میں آرٹیکل ۲۵۷ کے لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کے ساتھ گلگت بلتستان کو کیا حیثیت حاصل ہے اس معاملے میں ان کا علم صفر ہوتا ہے۔جبکہ اس آرٹیکل کو پاکستان کے دیگر تین آئین ۱۹۵۰ء،۱۹۵۶ء،۱۹۶۲ء میں آرٹیکل ۳۷۰،۲۰۳،۲۲۱ کے تحت بالترتیب یہی حیثیت حاصل تھی اور ۱۹۷۳ ء میں بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی سوائے اس کا آرٹیکل تبدیل کرنے کے ۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۵۷ ہے کیا ؟ اس کی رو سے جب ریاست جموں کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ الحا ق کر لیں گے تو پاکستان اور ریاست جموں کشمیر کے تعلقات ان کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ترتیب دیے جائیں گے۔ یہاں جب بات ریاست جموں کشمیر کی آتی ہے تو یہ ریاست جموں کشمیر ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء سے ۲۲ اکتو بر ۱۹۴۷ ء کی حیثیت سے آتی ہے جس دوران ریاست جموں کشمیر اندرونی طور پر مکمل طور پر خود مختار رہی ہے گلگت بلتستان اس کا حصہ تھا۔
گلگت بلتستان کے ریاست جمون کشمیر میں شمولیت کے بعد (جیسا کے اس زمانے کا دستور تھا) وہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہو گئی ۔ جب انگریزوں کو اس کی معاشی اور جغرافیائی اہمیت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے ریاست جموں کشمیر پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ گلگت کو عبوری طور پر انگریزوں کے حوالے کیا جائے ، کچھ مورخین کا خیال ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں سیاسی فسادات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے ، جن میں ۱۶ جولائی ۱۹۳۲ء کا قابل ذکر واقعہ بھی شامل ہے۔ انگریز ہر حال میں دور کی سوچتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ ۱۸۵۷ء میں جب برصغیر ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا تو اسے کالونی کادرجہ دے دیا گیا اور انگریزوں نے جو بھی کام کیا وہ آئینی اور قانونی تدبیروں(Constitutional Development) سے کیا . یہی وجہ ہے کہ ہمیں اگلے نوے سالوں میں کئی بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ یوں بالآخر مہارجہ ریاست جموں کشمیر کو مجبور کیا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کو انگریزوں کے حوالے کرے اور گلگت کو ۱۹۳۶ء میں ساٹھ سالہ پٹے پر انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا لیکن یہ بھی صرف انتظامی تبدیلی تھی قانونی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہی رہا۔
۱۵ اگست ۱۹۴۷ ء کو انگریزوں کے ہندوستان چھوڑتے ہی گلگت بلتستان پھر واپس انتظامی طور پر ریاست جموں کشمیر کا حصہ بن گیا اور مہارجہ جموں کشمیر ہری سنگھ نے کرنل کھنسار سنگھ کو یہاں پر گورنر مقرر کیا۔ ریاست جموں کشمیر پر قبائلی حملے کے بعد جب قبائلی سرینگر کے قریب پہنچ چکے تھے تو مہارجہ ہری سنگھ نے بھارت سے مدد طلب کی جس کے جواب میں بھارتی فوجیں ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ کو ریاست جموں کشمیر میں داخل ہوئیں جب یہ خبر گلگت پہنچی تو وہاں کے لوگوں کو ہندوستان کی کشمیر پر فتح اور قبضے کی کوشش عملی ہوتی نظر آئی تو انہوں نے مہاراجہ کی انتظامیہ کے خلاف تحریک چلانے اور اپنی آزادی کا اعلان کر دیا یوں کرنل کھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ میجر براؤن جو کہ ریاستی فوج کا میجر تھا نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور یکم نومبر ۱۹۴۷ کو گلگت بلتستان میں بغاوت ہو گئی۔
۱۶ نومبر ۱۹۴۷ کو پہلا پولیٹیکل ایجنٹ خان محمد عالم خان گلگت میں وارد ہوا اور انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ اس دوران یعنی یکم نومبر سے لے کر ۲۹ اپریل ۱۹۴۹ء تک گلگت بلتستان کو نظریاتی طور پر ’’آزاد جموں کشمیر ‘‘ کا ہی حصہ سمجھا جاتا رہا اور یہاں کے تعلقات بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کے رہے ۔
۲۸ اپریل ۱۹۴۸ کو ایک معاہدہ طے پاتا ہے جسے ’’معاہدہ کراچی ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے اس معائدے میں ریاست جموں کشمیر کی طرف سے مسلم کانفرنس کے صدر غلام عباس اور آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم کے دستخط ہیں جبکہ پاکستان کی طرف سے مشتاق احمد گورمانی جو کہ ’’فیڈل منسٹر فار کشمیر افیئرز‘‘ تھے نے دستخط کیے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ ۱۹۹۰ تک پوشیدہ رہا جس کی وجہ سے اس کی صحت پر بھی شک کیا جاتا ہے۔ کچھ محققین اور مورخین کے مطابق خود سردار ابراہیم خان اس کی صحت سے انکار کر چکے ہیں تاہم وہ اپنی کتب میں خاموش ہی نظر آتے ہیں۔
آئین پاکستان کی رو سے ریاست جموں کشمیر (بشمول گلگت بلتستان) کو خصوصی حیثیت حاصل ہے ، یہ حیثیت Problem اور Dispute کے درمیان ہے ہندوستان اسے مسئلہ (اندرونی) سمجھتا ہے جبکہ پاکستان کا آج تک موقف متنازعہ (بین الاقوامی ) کا تھا۔بھارت کے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ میں ریاست جموں کشمیر (بشمول لداخ، جموں، گلگت بلتستان ) کو خصوصی حیثیت حاصل ہے حالانکہ بھارت کا سیاسی موقف مختلف ہے اب اگر پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں صوبہ بناتا ہے تو بھارت کو جواز مل جائے گا کہ وہ ریاست جموں کشمیر (بھارتی زیر انتظام) کو اپنا قانونی حصہ بنا لے کیونکہ اس کی بنیاد پاکستان ہی رکھے گا پاکستان پہلے ہی اپنے موقف کی وجہ سے خارجہ تعلقات میں مسائل سے گھرا ہوا ہے، اس کا موقف ریاست جموں کشمیر پر مزید کمزور بلکہ ختم ہو جائے گا ۔
ریاست جموں کشمیر میں اس وقت تک لاکھوں کی قربانیاں، عزتوں کی پامالی اور بھوک و افلاس اس تقسیم کے لیے قطعا برداشت نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ سوال ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی کا ہے جسے اقوام متحدہ میں دونوں ہندوستان اور پاکستان قبول کر چکے ہیں ۔ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا آئینی، قانونی، تاریخی، جغرافیائی حصہ ہے اور اس کی آزادی بھی ریاست جموں کشمیر کی آزادی سے مشروط ہے۔ اگر کوئی بھی حکومت اس قسم کا کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے تو پھر ایک اور کشیدگی کا خطرہ ہے کیونکہ اس سے نفرتیں مزید بڑھیں گی، کشمیری جو ابھی تک پاکستان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں بد دل ہو جائیں گے بھارت کو جواز مل جائے گا ، ستر سال کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی، ریاست جموں کشمیر تقسیم ہو جائے گی ۔
پاکستان کے گلگت بلتستان کو لے کر اپنے مفادات بالکل درست اور بجا ہیں اور چین کے ساتھ تجارتی معاہدے میں کسی بھی قسم کے نقصان کا کوئی خدشہ نہیں ہے ، خواہ کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ ہو مگر پاکستانی حکومت کو اپنی مفادات کی خاطر ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کے خون کو قربان نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی بھی فیصلے پر ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کے مستقبل کومدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔