گاہے گاہے باز خواں

کوئی بہت پرانی بات نہیں، ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں پر بھی معقول حد تک توجہ دی جاتی تھی بلکہ داخلے کے وقت ان کے حوالے سے خصوصی سیٹیں بھی رکھی جاتی تھیں اور یہ رعایت پروفیشنل تعلیم یعنی میڈیکل، انجینئرنگ، قانون اور کامرس کے اداروں میں بھی موجود ہوا کرتی تھی اور یوں ہر کلاس میں کچھ طلبہ و طالبات کھیل، خطابت، مصوری، ڈرامے، موسیقی اور شعرو ادب کے بغلی دروازوں سے اپنی انٹری ڈالتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں قرأت، نعت خوانی اور حفظ قرآن اور اس کے ساتھ ساتھ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کے حامل خصوصی بچے بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے۔ نوے کی دہائی میں انگلش میڈیم اسکولوں کے فروغ اور اعلیٰ تعلیم کی سطح پر سمیسٹر سسٹم کے رواج کی وجہ سے ان سیٹوں کی تعداد کم اور کہیں کہیں بالکل ختم کردی گئی۔ طلبہ یونینز پر پابندی اور کھیل کے میدانوں کی کمیابی کے باعث غیر نصابی سرگرمیوں اور نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے مختلف دروازوں پر تالے پڑنے لگے۔
ملٹی نیشنل اور آئی ٹی انڈسٹری کے تخلیق کردہ معاشی پیکیج بنیاد نظام حیات نے سوشل سائنسز کو کھڈے لائن لگا دیا اور پرفارمنگ آرٹس کو تضیح اوقات سمجھا جانے لگا جو ایک انتہائی تشویش ناک صورتحال تھی کہ غربت، جہالت، تعلیمی سہولیات کی کمی اور حکومتوں کی غلط ترجیحات کے باعث ساٹھ سے ستر فیصد پانچ سے پندرہ سال کی درمیانی عمر کے بچے یا تو اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتے تھے یا پرائمری اور مڈل کلاسوں کے درمیان کہیں اس دائرے سے نکل جاتے تھے اور یوں انھیں کسی غیر نصابی سرگرمی کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے شعور اور اظہار کا موقع سرے سے مل ہی نہیں پاتا تھا جب کہ باقی ماندہ بچوں کی اکثریت انگلش میڈیم طرز تعلیم یا پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے شعبوں کے مخصوص تقاضوں کے باعث کولہو کے بیل کی طرح پہلے سے بنائے گئے ایسے راستوں پر رواں دواں رہتی جہاں کسی غیر نصابی تعلیم کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تیس چالیس برس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکنے والے طلبہ و طالبات میں غیرنصابی حوالوں مثلاً کھیل، خطابت، شعر و ادب اور پرفارمنگ، آرٹس وغیرہ میں نام پیدا کرنیوالوں کی تعداد اپنے پیشروؤں کی نسبت بہت ہی کم ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کا ایک ناخوشگوار نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ فن کاروں کے ساتھ ساتھ ان فنون کے شائقین اور پرستاروں میں بھی نہ صرف بہت تیزی سے کمی ہوئی ہے بلکہ مناسب تربیت اور مواقع نہ ملنے کی وجہ سے ان کا ذوق اور معیار بہت شدت سے اور منفی انداز میں متاثر ہوئے ہیں۔
ایسے میں اگر کسی تعلیم سے متعلق ادارے میں نوجوان نسل کی ذہنی اور ذوقی تربیت کے حوالے سے کوئی ڈھنگ کا کام ہو، کوئی اچھی محفل جمے، تخلیقی صلاحیتوں کا کوئی مثبت اظہار سامنے آئے اور قارئین، سامعین یا ناظرین دل کھول کر اور بھرپور انداز میں اس میں حصہ لیں اور اس کی تحسین کریں تو دل کو خوشی سی ہوتی ہے اور ان اداروں کے منتظمین اور اساتذہ کے لیے بھی دل سے دعا نکلتی ہے کہ کم از کم وہ اپنی حد تک تو انسان اور روبوٹ کے درمیان موجود اس فرق کو برقرار اور قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس کے بغیر یہ دنیا کسی جنگل یا پاگل خانے کی تصویر بن کر رہ جائے گی۔
کل اور پرسوں میں دو ایسی ہی اچھی اور دل خوش کن تقریبات بالترتیب اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور اور ایف سی کالج (جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے) میں منعقد ہوئیں ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ نے اپنے ادبی مجلے کریسنٹ کا 125 سالہ خاص نمبر شائع کیا ہے جس کی افتتاحی تقریب 12 اکتوبر کو دن کے وقت ہوئی اور اگلے ہی روز یعنی 13 اکتوبر کی شام ایف سی کالج یونیورسٹی نے عمرانیات سے متعلق ایک کانفرنس کا اختتامی اجلاس ایک مشاعرے کی شکل میں رکھا جسے شعبہ انگریزی نے اردو والوں کی مدد سے مل کر ترتیب دیا تھا۔
پہلی تقریب سے میرا تعلق یوں بنا کہ اس رسالے کی اشاعت کے سترویں سال میں، میں وہاں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا اور ادبی اعتبار سے ’’رفت‘‘ گیا اور ’’بود‘‘ تھا کا فرق جاننے اور سبق سیکھنے کی کوشش کررہا تھا جب کہ عملی طور پر میرا زیادہ وقت کرکٹ کھیلنے میں گزرا کرتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان دنوں اس حصہ اردو کے مرتبین میں مولانا علم الدین سالک، پروفیسر شہرت بخاری، خواجہ نذیر احمد اور پروفیسر خالد بزمی شامل تھے۔
ان دنوں میری کچھ ابتدائی تحریریں ماہنامہ ’’چاند‘ اور ’’شمع‘‘ اور ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ اور ’’قندیل‘‘ میں تو شائع ہوئیں مگر غالباً ان اساتذہ کے رعب کی وجہ سے مجھے کریسنٹ میں اشاعت کے لیے کچھ پیش کرنے کی ہمت نہ ہوسکی البتہ بی اے میں کالج کی سول لائنز شاخ کے ادبی مجلّے ’’فاران‘‘ میں یہ کسر خوب ٹھوک بجا کر پوری کی گئی۔
موجودہ شمارے میں دی گئی اطلاع کے مطابق کریسنٹ کی اشاعت کا آغاز 1892ء میں ہوا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یقینا اس کا شمار تعلیمی اداروں سے شائع ہونے والے ادبی مجلّوں کی سب سے سینئر اور اولین صف میں ہوگا۔ ان 125 برسوں میں اس کے کل کتنے شمارے کب کب شائع ہوئے اس سے قطع نظر 478 صفحات میں حصہ اردو اور 112 صفحات کی محدود گنجائش سے انگریزی میں شائع شدہ تحریروں کا کوئی ایسا انتخاب مرتب کرنا جو ہر لحاظ سے مکمل اور غیر متنازعہ ہو ناممکن سے بھی کچھ آگے کی بات ہے۔ سو اس بحث میں وقت ضائع کیے بغیر ان تمام احباب کو داد دی جانی چاہیے کہ جنھوں نے بہت محنت اور محبت سے اس امانت کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کردیا ہے۔
ایف سی کالج یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تازہ تر اضافہ برادرم ڈاکٹر نجیب جمال کا ہے جب کہ پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار غالباً سب سے پرانے ہیں۔ ان کے رفقاء میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، پروفیسر قاسم شاہ اور ڈاکٹر شہیر سمیت سب کے سب دوست ہی اردو دنیا کے جانے پہچانے نام ہیں۔ سو اچھے اور منتخب شاعروں کو جمع کرنا ان کے لیے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ مگر مختلف شعبوں سے جو بہت عمدہ طلبہ و طالبات وہاں جمع تھے ان کا انتخاب واقعی بہت خوشگوار مسرت کا حامل تھا کہ ایسے بھر پور انداز میں انوالو ہوکر سننے والے سامعین اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی جگہ بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔
مجھے صدارت اور اصغر ندیم سید اور کیپٹن عطا محمد کو مہمانان خصوصی کی عزت دی گئی جب کہ شعرا میں باقی احمد پوری، فرحت زاہد، سلیمان گیلانی، بشریٰ اعجاز، زاہد سعید زاہد، ڈاکٹر سعید احمد سعدی، سجاد بلوچ اور عزیزہ عنبریں صلاح الدین تھے۔ میزبان شعرا کے طور پر ڈاکٹر اختر شمار اور ڈاکٹر شہیر نے کلام سنایا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے چار شاعروں کا باہمی تعلق میاں بیوی کا بھی تھا کہ عنبریں، سجاد کی بیگم اور زاہد سعید فرحت زاہد کا میاں ہے۔ صدارتی غزل کے چار شعر:
بے گماں بے سبب بدل جائے
کیا خبر کون کب بدل جائے
یہ خموشی یہ جبر کا موسم
ضبط کہتا ہے اب بدل جائے
پڑ ہی جاتی ہے گفتگو میں شکن
کوئی اندر سے جب بدل جائے
یہ ممکن ہے کچھ نہ ہو تبدیل
یہ بھی ممکن ہے سب بدل جائے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے