سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر ہونے والی اقتدار کی کشمکش کو حیرت اور دلچسپی کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ سعودی شاہی خاندان کے بارے میں دنیا ہمیشہ سے تجسس میں مبتلا رہی ہے، کیونکہ شاہی خاندان کے معاملات پر کبھی کوئی خبر مصدقہ ذرائع سے نہیں ملتی، جس کی وجہ سے تجسس مزید بڑھ جاتا۔ شاہی خاندان کے بارے میں متجسس لوگوں کو سی آئی اے کے سابق عہدیدار بروس ریڈل کا ایک دلچسپ مشورہ یاد رکھنا چاہئے۔ بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے بارے میں جاننا ہو تو اُس کے لیے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں داخلے کی ضرورت نہیں، بس شیکسپیئر کو پڑھ لیں۔
جدید سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود کا جب نومبر 1953ء میں انتقال ہوا تو اُس وقت اُن کے پاس 40 بیٹے اور 60 پوتے موجود تھے۔ ایک بیٹا ترکی بن عبدالعزیز پہلے ہی فوت ہوچکا تھا۔ ترکی بن عبدالعزیز کو ولی عہد کے طور پر تیار کیا گیا تھا لیکن اُن کی وفات کے بعد سعود بن عبدالعزیز تخت کے وارث ٹھہرے۔
سعود بن عبدالعزیز اپنے والد کے ساتھ قربت اور 1926ء میں شریف آف مکہ کے خلاف جنگ میں دلیرانہ لڑتے ہوئے اپنے والد کی جان بچانے پر حکمرانی کے حق دار تسلیم کئے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دشمنوں کے لشکر نے عبدالعزیز بن سعود کو گھیر کر حملہ کیا، عبدالعزیز بن سعود اُس حملے میں زخمی ہوکر بے ہوش ہوگئے تھے۔ اُس وقت سعود بن عبدالعزیز نے نہ صرف اپنا اور والد کا دفاع کیا بلکہ ایک حملہ آور کو مار ڈالا، جبکہ باقی کو بھگادیا۔ اُسی دوران کمک بھی پہنچ گئی اور بادشاہ کو بچا لیا گیا۔
سعود بن عبدالعزیز بادشاہ تو بن گئے لیکن اُنہیں اپنے سوتیلے بھائی فیصل بن عبدالعزیز کی صورت میں ایک حریف کا سامنا رہا۔ عبدالعزیز صرف عربی لکھنا پڑھنا، گھڑ سواری اور قبائلی طور اطوار جانتے تھے، جبکہ فیصل بن عبدالعزیز بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ تھے اور بیرونی حکومتوں سے روابط کے باعث سفارتکاری کا تجربہ بھی رکھتے تھے عبدالعزیز بن سعود بھی بیٹوں کی قابلیت اور مزاج سمجھتے تھے اِسی لیے اندرونی معاملات میں سعود بن عبدالعزیز کو ساتھ رکھتے جبکہ بیرونی دوروں اور غیر ملکیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں فیصل کو ساتھ رکھتے تھے۔
دونوں بھائیوں کے درمیان رقابت موجود تھی اور یہیں سے شاہی خاندان میں اقتدار کی کشمکش کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ 1964ء کے آغاز میں برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی نے شاہی خاندان میں تنازع کی اطلاع دی جو سچ ثابت ہوئی۔ سعودی شاہی خاندان کے علاوہ سعودی علماء بھی سعود بن عبدالعزیز کے خلاف ہوگئے اور اُن کے شاہی رہن سہن اور اخراجات پر سوالات اُٹھائے گئے۔ علماء کی حمایت سے فیصل بن عبدالعزیز نے وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالا اور بادشاہ کو بالکل بے اختیار کردیا۔
سعود بن عبدالعزیز بادشاہت چھوڑنے کو تیار نہیں تھے، بلکہ اُنہوں نے مسلح مزاحمت کی کوشش بھی کی جس کے نتیجے میں فیصل بن عبدالعزیز کو 6 ماہ کے لیے ریاض چھوڑ کر جدہ منتقل ہونا پڑا۔ اکتوبر 1964ء میں فیصل بن عبدالعزیز علماء کی حمایت سے ریاض واپس پہنچے اور سعود بن عبدالعزیز کو تخت سے اتار کر خود بادشاہت سنبھال لی۔
سعودی شاہی خاندان کے اِس پہلے جھگڑے سے بادشاہت کے لیے اصول بھی وضع ہوگئے۔
پہلا اصول یہ کہ سعودی عرب میں بادشاہت کے لیے صرف خاندان نہیں بلکہ علماء کی مدد بھی ضروری ہے۔ سعود بن عبدالعزیز کو تخت سے اتارنے کے حکم نامے پر سینکڑوں شہزادوں میں سے صرف 72 نے دستخط کئے، لیکن اصل کام اُن 12 علماء نے کیا جن کے دستخط اُس حکم نامے پر ثبت ہوئے۔
دوسرا اصول یہ طے پایا کہ بادشاہ کے انتخاب میں فوج، انتظامیہ، عوام اور کاروباری طبقے کا کوئی کردار نہیں۔
تیسرا یہ کہ بادشاہ کو اسلامی اصولوں اور روایات پر کاربند ہونا چائیے یا کم از کم اِس کے کردار پر علماء کوئی اعتراض نہ کریں۔ جس کی مثال محمد بن عبدالعزیز ہیں، جو سعود کے بعد تخت کے وارثوں میں اپنی سنیارٹی کی وجہ سے پہلے نمبر پر تھے لیکن علماء نے اُن کے طرزِ بود و باش پر اعتراض اُٹھا کر فیصل کو تخت کا حق دار ٹھہرایا۔
سعود بن عبدالعزیز بادشاہی چھن جانے کے بعد اپنے بیٹوں کے ساتھ النصیریہ پیلس ریاض تک محدود ہوگئے اور شاہ فیصل کی بیعت سے انکاری تھے۔ فیصل کو دھڑکا لگا رہا کہ سعود کا ردِعمل کیا ہوگا۔ سعود اُس دوران بادشاہت سے دستبرداری کے عوض بھاری معاوضہ اور بیٹوں کے لیے اعلیٰ مناصب کا تقاضہ بھی کر رہے تھے۔
شاہ فیصل نے سعود بن عبدالعزیز سے کہا کہ وہ اپنی چاروں بیویوں اور خدام کے ساتھ سوئٹزر لینڈ یا آسٹریا چلے جائیں، لیکن سعود نے جواب دیا کہ اُن کے بیٹوں سمیت 500 افراد کو اُن کے ساتھ روانہ کیا جائے۔ فیصل بن عبدالعزیز نے مطالبہ نہ مانا اور معاملہ لٹک گیا۔
اُسی دوران سعودی انٹیلی جنس نے اطلاع دی کہ سعود اپنے بیٹوں اور گارڈز کو مسلح کر رہے ہیں تاکہ سعودی عرب سے اُن کی جبری بے دخلی کے خلاف مزاحمت کرسکیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ سعود کے حامی قبائل بھی شاہ فیصل کو ہٹاکر سعود کو دوبارہ تخت پر بٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
ٹھوس اطلاعات پر سعودی انٹیلی جنس اور نیشنل گارڈز نے النصیریہ پیلس کا محاصرہ کیا۔ شاہ فیصل نے سعود بن عبدالعزیز اور اُن کے بیٹوں کو بیعت کے لیے پیغام بھجوایا۔ محمد بن عبدالعزیز جو سعود کے سگے بھائی اور شاہی خاندان کے ثالث کے طور پر مشہور تھے، شاہ فیصل کا پیغام لے کر النصیریہ پیلس گئے، اور محاصرے کے 3 دن بعد 28 نومبر کو ریڈیو مکہ نے اعلان کیا کہ سعود بن عبدالعزیز کے 11 بیٹوں نے شاہ فیصل کی بیعت کرلی ہے۔
بیٹوں کی طرف سے شاہ فیصل کی اطاعت کے اعلان نے سعود بن عبدالعزیز کو تنہا کردیا۔ سعود بن عبدالعزیز کے حامی قبائل بھی اِس اعلانِ اطاعت کے بعد سعود کی حمایت سے دستبردار ہوگئے لیکن شاہ فیصل کا جی نہ بھرا۔ شاہ فیصل نے سعود بن عبدالعزیز کو ریاض سے باہر المنصوریہ پیلس منتقل کردیا۔ تنہائی اور دیگر شہزادوں کے دباؤ کے علاوہ بیماری نے بالآخر سعود بن عبدالعزیز کو جھکنے پر مجبور کردیا اور 6 جنوری 1965ء کو سعود بن عبدالعزیز نے اطاعت مان لی۔ شاہ فیصل کے چچا عبداللہ بن عبدالرحمن ثالث بنے اور سعود بن عبدالعزیز نے نئے بادشاہ کے محل میں جا کر بیعت کی۔
خاندانی تنازع حل ہونے کے بعد شاہ فیصل نے امورِ سلطنت پر توجہ دینا شروع کی اور 691 ملین ڈالر کا پہلا بجٹ منظور کیا جس کا ایک تہائی حصہ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مختص کیا گیا۔ پچھلا بجٹ 559 ملین ڈالر کا تھا۔ شاہ فیصل کا بجٹ اگرچہ پچھلے بجٹ سے صرف 16 فیصد بڑھا تھا لیکن اِس کی خاص بات شاہی خاندان اور طاقتور علماء کی مراعات میں کمی تھی۔ کنگ عبدالعزیز کے بیٹوں کو 30 ہزار ڈالر وظیفہ ملتا تھا جو کم کرکے 20 ہزار ڈالر کردیا گیا۔ یہ بات شاہی خاندان اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نہ بالکل بھی پسند نہیں آئی۔
1964ء کے اواخر میں ملکہ عفت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے چلائی گئی مہم نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ملکہ عفت کے مطالبے پر قدامت پسند علماء کے علاوہ قبائل بھی ناراض ہوگئے جو پہلے ہی سعود بن عبدالعزیز کے زیرِ اثر رہے تھے اور ملکہ عفت کے مطالبہ پر مزید خائف ہوئے کہ اِس اقدام سے قبائلی نظام کو دھچکا لگے گا۔
اِس تنازع کے نتیجے میں شاہ فیصل نے جنوری 1965ء میں ایک بار پھر چچا عبداللہ بن عبدالرحمن سے ملاقات کی۔ عبداللہ بن عبدالرحمن نے شاہی خاندان اور قبائل کے تحفظات بیان کئے، لیکن معاملے کا فوری حل نہ نکلا۔ بعد ازاں مارچ 1965ء میں قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان طاقت کے توازن کا ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت 53 سالہ خالد بن عبدالعزیز کو سیاسی ناتجربہ کاری کے باوجود ولی عہد مقرر کردیا گیا۔
خالد بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنانے کے بعد بھی خاندان میں رنجشیں برقرار رہیں اور شاہی خاندان میں سے کئی افراد نے انقلابیوں کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ جنوری 1966ء میں مصر نواز گروپوں نے نجد کے علاقوں میں پمفلٹ تقسیم کئے جن میں شاہ فیصل کو ہٹاکر معزول بادشاہ سعود بن عبدالعزیز کو واپس لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اِس مطالبے کے پیچھے نجد کے قبائل بھی تھے جن کے وظیفے بند ہوگئے تھے۔ نیشنل گارڈز کے کچھ افسروں کی تنخواہیں بھی روکی گئی تھیں جن سے نیشنل گارڈز میں بھی بددلی پائی جاتی تھی۔ اِس کے علاوہ شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز، جو نیشنل گارڈز کے کمانڈر تھے، اُنہوں نے نجدی قبائل کے افسروں کی جگہ حرب اور شمر قبائل کے افراد کو بھرتی کرلیا تھا۔ آل سعود خود نجد سے تھے اِس لیے شاہی خاندان میں مزید بددلی پھیلی اور یہ سمجھا جانے لگا کہ شاہ فیصل نے اختیارات مکمل ہاتھ میں لے کر نجد کو ایک طرف کردیا ہے اور جنوبی علاقوں کے شمر اور حرب قبائل کو طاقتور بنارہے ہیں۔
اِس دوران سعود بن عبدالعزیز جو جلاوطن ہوکر آسٹریا جاچکے تھے، وہاں سے دل بھرنے پر یونان پہنچے۔ یونان میں اپنے علاج معالجہ کے علاوہ سعود بن عبدالعزیز نے قبائلی اور عرب لیڈروں سے رابطے شروع کردیئے جن میں وطن کی محبت، کعبۃ اللہ میں عبادت کے لیے تڑپ کا اظہار کیا۔ سعود بن عبدالعزیز نے عرب لیڈروں سے کہا کہ کم از کم اُنہیں عرب میں رہنے دیا جائے خواہ کوئی اور ملک ہی کیوں نہ ہو۔ اِسی دوران سعود بن عبدالعزیز کا اپنے بیٹے محمد بن عبدالعزیز سے بھی رابطہ ہوگیا جو سعودی عرب میں ہی ایک معمولی عہدے پر براجمان تھا۔
12 اکتوبر 1965ء کو بیروت کے ایک اخبار نے سعود بن عبدالعزیز کے لبنان میں رہائش اور شہریت کے منصوبہ کا انکشاف کیا۔ اخبار کے مطابق سعود بن عبدالعزیز کی ایک بیوی اُمِّ منصور نے لبنان میں 3 ملین لبنانی پاؤنڈ کی جائیداد خریدنی تھی، شہریت کے لیے سعود بن عبدالعزیز نے 20 سال کے دوران 50 ملین لبنانی پاؤنڈ ادا کرنے تھے اور اِس کے علاوہ شاہ فیصل کے خلاف لبنان اور مصر کی پروپیگنڈا مہم کے لیے بھی 5 لاکھ لبنانی پاؤنڈ دینے تھے۔
سعود بن عبدالعزیز اِس قدر مہنگے منصوبے پر رضامند نہ ہوئے، اور ایک ہفتے بعد ریاض میں افواہیں پھیل گئیں کہ شاہ فیصل، سعود بن عبدالعزیز کی ریاض واپسی اور ریاض کے نواح میں ایک محل دینے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ سعود بن عبدالعزیز اِس پر راضی نہ ہوئے اور مطالبہ کیا کہ نہ صرف اُن کا ’شہزادہ سعود، امیرالمومنین‘ کا خطاب بحال کیا جائے بلکہ ضبط کی گئی جائیداد بھی واپس کی جائے۔ لیکن شاہ فیصل ’امیرالمومنین‘ کا خطاب دینے پر رضامند نہیں ہوئے کیونکہ اِس طرح اُن کا اپنا اثر و رسوخ اور اقتدار کمزور پڑتا تھا۔
دوسری طرف سعود بن عبدالعزیز اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے اپنی واپسی کا موقع کھو دیا لیکن عرب لیڈروں سے رابطے بحال رکھے اور پھر 15 اکتوبر 1966ء کو عراق کے ایک اخبار ’العرب‘ نے خبر شائع کی کہ سعود بن عبدالعزیز عراقی شہریت حاصل کرنے والے ہیں اور بغداد میں ایک وِلا بھی خرید رہے ہیں۔
اِس خبر کی اشاعت پر شاہ فیصل عراقی حکومت سے شدید ناراض ہوئے اور عراق میں بھی حکام نے دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑنے کے خدشے پر سعود بن عبدالعزیز کو شہریت دینے کی مخالفت کی۔ عراقی حکومت کو بالآخر کہنا پڑا کہ سعود بن عبدالعزیز کو فوری طور پر شہریت نہیں دی جا رہی۔
سعود بن عبدالعزیز بہت دلگرفتہ ہوئے اور مصر کے صدر کو قبرص سے خط لکھا کہ اُنہیں مصر میں رہائش کی اجازت دی جائے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر شدید مخمصہ کا شکار ہوئے کہ سعود بن عبدالعزیز کو کیا جواب دیا جائے کیونکہ سعود بن عبدالعزیز اور صدر ناصر کے تعلقات کشیدہ رہے تھے اور شاہ فیصل کے ساتھ بھی ناصر کے تعلقات نہیں بن سکے تھے کیونکہ 1962ء کی یمن جنگ پر سعودی عرب نے مصر کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
صدر ناصر نے بالآخر سعود بن عبدالعزیز کی درخواست قبول کرلی اور 18 دسمبر 1966 کو سعود بن عبدالعزیز مصر پہنچے جہاں چند وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں نے اُن کا استقبال کیا۔ عرب دنیا میں جمہوریت کے چیمپئن کہلانے کے شوقین صدر ناصر نے سعود بن عبدالعزیز کو سعودی بادشاہت کے خاتمہ کے لیے بہترین ہتھیار سمجھا اور سعود بن عبدالعزیز، صدر ناصر سے توقع رکھتے تھے کہ وہ اُنہیں تخت واپس لوائیں گے۔
سعود بن عبدالعزیز کی نئی چال پر شاہ فیصل نے سعودی عرب میں موجود سعود بن عبدالعزیز کے بیٹوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں کے وظائف بند کردیئے، جبکہ اُن کے اثاثے اور پاسپورٹ بھی ضبط کرلیے گئے۔
مصر پہنچنے کے دو دن بعد سعود بن عبدالعزیز کی صدر ناصر سے ملاقات ہوئی۔ اُس ملاقات کو میڈیا کے سامنے خوب اچھالا گیا، پھر دونوں نے تنہائی میں ملاقات کے دوران شاہ فیصل کو اقتدار سے نکال باہر کرنے پر مشاورت کی۔ سعود کی اُمیدیں اپنی جگہ لیکن صدر ناصر اُنہیں سعودی عرب پر حکومت کے لیے مناسب اُمیدوار نہیں سمجھتے تھے۔
مصری میڈیا نے اِس ملاقات کی خبر دینے کی بجائے سابق بادشاہ کا مذاق اُڑانے پر زور لگایا جبکہ سعودی میڈیا نے سنسر شپ کی وجہ سے خبر ہی غائب کردی۔ مصری میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی خبر پر سعود بن عبدالعزیز کے ہمدرد اور خیرخوا بھی ناراض ہوگئے اور اُن خبروں کو سعودی عرب کے لیے شرمندگی کا باعث قرار دیا گیا۔
مصر میں چند دن رہنے کے بعد سعود بن عبدالعزیز کو اندازہ ہوا کہ اُن کا مصر میں رہنا ممکن نہیں، ہر وقت اُن کا پیچھا کیا جاتا، اُن سے مرضی کے انٹرویو دلوائے گئے جن میں اُن سے مصری انقلابی مہم کی تعریف اور بادشاہت پر تنقید کروائی گئی۔ اُدھر سعودی عرب میں سعود بن عبدالعزیز ایک بار پھر اہم ایجنڈا بن گئے۔ شاہ فیصل اِس معاملے پر بات کے روادار نہ تھے لیکن اُن کے قریبی رفقاء اُنہیں احساس دلا رہے تھے کہ اگر سعود بن عبدالعزیز کو واپس آنے دیا جاتا تو حالات اِس قدر خرابی کی طرف نہ جاتے۔ سعود بن عبدالعزیز کے بیانات سے ایک بار پھر شاہی خاندان میں بھی تلخیاں اُبھر آئیں۔
اُسی دوران سعودی انٹیلی جنس چیف کمال ادھم نے سعود بن عبدالعزیز کے ایجنٹوں اور یمنی قبائل سے رابطوں کا سراغ لگایا۔ مدینہ کے نواح میں بسنے والے شمر قبائل سے بھی سعود بن عبدالعزیز کے رابطے سامنے آئے۔ قبائل کو سعود کی مدد سے روکنے کے لیے بھاری رقوم ادا کی گئیں۔ یمنی قبائل جنہوں نے سعود کے حق میں بغاوت کرنا تھی اُنہیں بھی رام کرنے کے لیے رقوم دینا پڑیں۔
5 جنوری 1967ء کو سعود بن عبدالعزیز نے کرسچین سائنس مانیٹر کو بہت خوشگوار موڈ میں انٹرویو دیا اور کہا کہ اُن کی معزولی علماء کے فتویٰ کے باعث ہوئی۔ اِس کے بعد ایک امریکی رپورٹر سے انٹرویو میں سعود بن عبدالعزیز نے دعویٰ کیا کہ کئی قبائلی لیڈر اُنہیں خط لکھ کر شاہ فیصل کے خلاف اقدام کی حمایت کا یقین دلا رہے ہیں۔ سعودی فورسز کے افسر بھی اُن سے رابطے میں ہیں۔
26 اپریل 1967ء کو سعود بن عبدالعزیز نے مصر کے وزیرِ دفاع اور دیگر اہم حکام کے ساتھ صنعاء کا دورہ کیا اور یمن کی انقلابی فورس کو حمایت کا یقین دلایا اور سعودی فورسز کو یمن میں جنگ کے خاتمے اور شاہ فیصل کی اطاعت ترک کرنے کے لیے کہا۔ اُس دورہ سے سعود بن عبدالعزیز اور شاہ فیصل کے تعلقات مزید بگڑ گئے۔ کئی شہزادوں نے سعود بن عبدالعزیز کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی مخالفت کی لیکن شاہ فیصل اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
1967ء کی مصر اسرائیل جنگ کے بعد سوویت یونین نے عرب لیڈروں کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے پر آمادہ کیا۔ شام کی بعث پارٹی کے سوا سب راضی ہوگئے اور اگست کے آخر میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں عرب سربراہ کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس میں جنگ سے بدحال معیشت کے شکار مصر نے سعودی عرب کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ صدر ناصر نے جلد سعودی عرب کے دورہ کا اعلان کیا کیونکہ معاشی بحالی کے لیے مصر کو سعودی امداد کی ضرورت تھی۔ صدر ناصر نے سعودی عرب میں آئندہ مداخلت نہ کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
19 ستمبر 1967ء کو مصر میں سعودی عرب کے سفیر شیخ محمد علی ردا نے معزول بادشاہ سے ملاقات کی اور کہا کہ خطے کے بدلتے حالات میں اُن کی وطن واپسی ممکن ہے۔ سعودی سفیر کو اُس وقت سخت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب معزول بادشاہ نے پیشکش پر توجہ کے بجائے الٹا سفیر کو پیشکش کی کہ وہ اُسے 10 لاکھ برطانوی پاؤنڈ دیں گے اگر وہ اُن سے ہاتھ ملا لے۔ بادشاہت واپس ملنے پر وزارتِ عظمیٰ کا بھی وعدہ کیا۔ سعودی سفیر اِس پیشکش سے گھبرا گئے اور فوری طور پر ملاقات ختم کرکے اُٹھ گئے۔
سعودی حکام معزول بادشاہ سے اِس قدر ناراض ہوئے کہ اُس وقت کے وزیرِ داخلہ شہزادہ فہد نے جوابی پروپیگنڈا مہم شروع کرنے کی تجویز دی۔ اُسی دوران معزول بادشاہ کا بیٹا انتقال کرگیا۔ جب اُس کی میت جدہ لائی گئی تو ولی عہد خالد نے میت معزول بادشاہ کے پاس مصر بھجوانے کا حکم دیا۔ ابتدائی طور پر شاہ فیصل نے مخالفت کی لیکن شہزادوں کے دباؤ پر فیصلے سے اتفاق کرلیا۔
سعودی حکومت نے مصر کے ساتھ خرطوم میں طے پانے والے معاہدے کے تحت معزول بادشاہ کو دی گئی آزادی پر سخت اعتراض کیا، بالآخر ستمبر 1967ء میں صدر ناصر نے معزول بادشاہ کے پاس خصوصی ایلچی بھیجا اور بتایا کہ اُن کو رہائش کی مد میں ماہانہ کئی ملین ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ معزول بادشاہ نے اشارہ سمجھ لیا اور رختِ سفر باندھنا شروع کردیا۔ اکتوبر کے آغاز پر مصری حکام نے سعودی حکومت کو آگاہ کیا کہ معزول بادشاہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا پرواز کرگئے ہیں۔
ویانا پہنچنے کے چند ماہ بعد معزول بادشاہ نے یونان کا رخ کیا اور اُن کا خیال تھا کہ یہ اُن کا آخری پڑاؤ ہوگا جس کے بعد وہ اپنے آباء کے وطن جاسکیں گے۔ یونان سے معزول بادشاہ نے شاہ فیصل کے ساتھ نئے سرے سے خط و کتابت کا آغاز کیا اور وطن واپسی کے لیے کہا۔ شاہ فیصل نے اُنہیں ’سربراہ آل سعود‘ کے لقب کے ساتھ واپسی کی پیشکش کی لیکن معزول بادشاہ کے نزدیک یہ بے معنی لقب تھا۔ معزول بادشاہ نے کسی اور بندوبست کے لیے کہا۔
دونوں سوتیلے بھائی کسی معاہدے پر نہ پہنچ پائے اور 23 فروری 1969ء کو معزول بادشاہ کے مشیر عمر ثقاف نے اُن کے انتقال کا اعلان کیا۔ شاہ فیصل نے اُن کی میت واپس لانے کے لیے شاہی طیارہ بھجوایا۔ مکہ مکرمہ میں نماز جنازہ کے بعد میت ریاض پہنچائی گئی جہاں نجد کے قبائل نے اپنے محبوب بادشاہ کا جنازہ پڑھا۔
شاہ فیصل اپنے سوتیلے بھائی کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی طور پر خفت کا شکار رہے۔ بھائی کی وفات پر سب جھگڑے بھلا دیئے لیکن شاہی خاندان کے اختلافات اور جھگڑے ختم نہ ہوئے اور شاہ فیصل 1975ء میں اپنے بھتیجے فیصل بن مساعد کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔
سعودی شاہی خاندان میں چلنے والی حالیہ کشمکش کی جڑ اُسی پرانی چپقلش میں پیوستہ ہے، جس میں نئے پیدا ہونے والے تنازعات مزید زہر بھرتے ہیں۔ شاہ فیصل کے بعد شاہ خالد کو اقتدار ملا اور پھر سدیری سیون کے نام سے مشہور 7 بھائیوں میں سے سب سے بڑے شہزادہ فہد اقتدار میں آئے۔
تخت و تاج کی وراثت اور جانشینی ہمیشہ سے سعودی شاہی خاندان میں تنازع کا باعث رہی ہے اور سعودی شاہی خاندان کو سعودی شاہی خاندان سے ہی خطرہ رہا ہے۔ 1960ء میں برطانیہ کے سفیر کے کہے گئے الفاظ آج بھی سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں بھی سعودی عرب حکمران خاندان کے تنازعات کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کاشکار رہا۔
شاہ عبداللہ کے دور کو سیاسی استحکام کا دور کہا جاتا ہے لیکن اگست 2010ء میں اُن کے بارے میں بھی خبر پھیلی تھی کہ وہ بغاوت کا شکار ہونے سے بال بال بچے۔ اُن کے خلاف مبینہ طور پر اُس وقت امریکا میں سعودی سفیر اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان سازش کر رہے تھے اور اُنہیں تخت سے ہٹانے کا منصوبہ تھا۔ مبینہ طور پر یہ منصوبہ سعودی عرب کے اُس وقت کے دشمن شمار کئے جانے والے ملک شام نے بے نقاب کیا اور شام کو یہ اطلاع روسی انٹیلی جنس نے دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اُس مخبری کے بعد ہی شاہ عبداللہ بیروت کے دورے پر گئے اور صدر بشارالاسد سے ملاقات کی اور تعلقات میں بہتری آئی۔
شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح ولی عہد یکے بعد دیگرے بدلے وہ آج کی بات ہے جو سب کے حافظے میں تازہ ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے جانشینی کے لیے کس طرح اندرونی اور بیرونی مدد لی یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
شاہ سلمان نے یکے بعد دیگرے ولی عہد کیوں بدلے اور اختیارات کے ارتکاز کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ دلچسپ امر ہے۔ شاہ سلمان کی تخت نشینی کے بعد اکتوبر 2015ء میں خبر آئی کہ شاہ سلمان کے 11 بھائیوں میں سے 8 اُنہیں ہٹانے پر متفق ہیں اور اُن کی جگہ سب سے چھوٹے بھائی احمد بن عبدالعزیز، جو سدیری شاخ سے ہی ہیں، کو لانا چاہتے ہیں۔ شاہ سلمان کو ہٹانے کی وجہ اُن کا الزائمر کا مریض ہونا اور ناتجربہ کار محمد بن سلمان کو جانشین بنانا بھی بتایا گیا ہے۔ اُس وقت تو اِس خبر کو زیادہ اہمیت نہیں ملی لیکن اب تازہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں چل رہا تھا، جس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کئے گئے۔