لوٹ مار کا گراف اور اقتصادی بھانڈے کا پیندا

حیرت بلکہ تف ہے ان کی عقلوں پر جنہیں اب بھی کوئی شک ہے اور وہ کسی ’’منطقی انجام‘‘ کے منتظر ہیں۔

عدالتی فیصلے بجا اور سر آنکھوں پر لیکن عوامی عقل بھی تو گھاس چرنے نہیں گئی۔

کامن سینس کی بات ہے کہ اگر سوچوں میں کجی، نیتوں میں کھوٹ نہ ہو تو صرف ’’ڈیلی میل‘‘ اور ڈیوڈ روز کے بھیانک ترین الزامات ہی کافی ہیں۔

پاناما سے آج تک تضادات کی فہرست بہت طویل جس کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن ایک طبقہ ہے جو پوری بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ جیب کتروں کا دفاع کر رہا ہے اور اگر دفاع نہیں کر رہا تو کنفیوژن کی بدبو پھیلانے کا باعث ضرور بن رہا ہے اور نہیں جانتا کہ کتنی ذلت، خجالت اور ندامت اس کا مقدر ہے۔

’’ڈیلی میل‘‘ اور ڈیوڈ روز کے سنگین ترین الزامات کو چیلنج نہ کرنا تو اپنی جگہ…صرف 10سال میں ’’ٹی ٹی کائو بوائے‘‘ کے اثاثوں میں 70گنا اضافہ اور برخوردار کے اثاثوں میں 8ہزار گنا اضافہ کس کھاتے میں؟

مشیروں اور ذاتی ملازموں کی 32کاغذی کمپنیوں کے ذریعہ کی گئی منی لانڈرنگ کو کب تک اور کتنا جھٹلایا جا سکتا ہے؟

شہزاد اکبر جیسے نیک نام پروفیشنل کے 18سوالات کا جواب کون دے گا؟

عدالت کا اپنا مقام، عوام کی اپنی عقل۔پاناما سے بھی پہلے میں نے اک سادہ سا سوال اٹھایا تھا کہ ’’عظیم قائدین اور مدبرین‘‘ کی اس جوڑی کے والد محترم محمد شریف مرحوم و مغفور سنا سات بھائی تھے جنہوں نے ’’اتفاق‘‘ کے بینر تلے دست کاری سے صنعتکاری تک ترقی کی اور پھر یہ سارے بھائی رضا مندی سے اپنے اپنے حصے لے کر کاروباری طور پر علیحدہ ہو گئے۔

باقی بھائیوں کی اولادوں نے صرف اور صرف کاروبار پر فوکس کیا جبکہ محمد شریف مرحوم و مغفور کے دو صاحبزادے یعنی نواز شہباز نوجوانی میں ہی فل ٹائم سیاستدان قرار پائے یعنی کاروبار کیا بھی تو بذریعہ ریمورٹ کیونکہ تب ان کے جینیئس فرزندگان حسن، حسین، حمزہ سلمان وغیرہ ابھی بچے تھے (چھوٹا سا میں بچہ ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے)۔

آج ان سب بھائیوں کی اولادوں کی جائیدادوں کا موازنہ کر لیں کہ وہ نواز شہباز کے اثاثوں اور دولت کی دھول بھی نہیں تو کیا صرف شریف مرحوم کی اولاد کو ہی سرخاب کے پر لگے تھے؟ خصوصاً ان حالات میں جب 80 کی دہائی کے شروع میں ہی شریف برادران سیاست کے گھوڑے پر سوار ہو چکے تھے اور دراصل یہی سیاست ان کے لئے ’’سرخاب کا پر‘‘ تھی۔

’’دولت بذریعہ سیاست اور سیاست بذریعہ دولت‘‘ کا یہ کھیل ہی ایسا تھا کہ یہ مالی اعتبار سے اپنے درجنوں کزن برادرز کے مقابلہ پر میلوں آگے نکل گئے۔

اس سارے ڈرامے اور ’’واقعاتی شہادتوں‘‘ کا دلچسپ ترین پہلو یہ کہ خود ان کا تیسرا سگا بھائی عباس شریف مرحوم بھی ’’ترقی‘‘ کے حوالہ سے ان کا عشر عشیر نہیں کیونکہ اس بھلے مانس کو سیاست کی نجاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

’’فیملی‘‘ نے پوری کوشش کی کہ اس نیک روح کو ’’سیاست کی صنعت‘‘ میں گھسائیں، ایک آدھ بار پکڑ دھکڑ کر اسے ایم این اے بھی بنوایا لیکن وہ ان کے ہاتھ نہ آیا۔

قدیم چینی دانش کہتی ہے کہ ’’راز‘‘ دماغوں پر نہیں غیر آلودہ دلوں پر منکشف ہوتے ہیں‘‘۔

شریف برادران کی محیرّالعقول مالی ترقی کی داستان کے اندر ہی بیشمار ایسے اشارے پنہاں و پوشیدہ ہیں جنہیں کوئی جینوئین اور نارمل آدمی نظر انداز کرنا بھی چاہے تو ممکن نہیں لیکن بالواسطہ یا بلاواسطہ طفیلیوں اور پروردہ معززین کے مرغے کی مجبوری ہے کہ وہ مسلسل اس وقت تک ایک ٹانگ پر کھڑا رہے جب تک اس کی یخنی بنا کر اس کا روسٹ تیار نہیں کر لیا جاتا۔

محبت اور وفا بہت قابل احترام اور مقدس جذبے ہیں لیکن کس قیمت پر؟ ملکی خود مختاری اور کروڑوں ہم وطنوں کی محرومیاں اک ایسی قیمت ہے جس کی ادائیگی ممکن نہیں۔ ضمناً عرض کرتا چلوں کہ ’’خود مختاری‘‘ کی بات میں نے اس حوالہ سے کی ہے کہ جو ملک اقتصادی طور پر کھچک جائے اس کی خود مختاری قدم قدم پر کمپرومائز ہو جاتی ہے۔

اک اور المیہ یہ کہ جب ٹاپ لیڈر شپ کرپٹ ہو جائے تو اس کے درباری حواری بھی پیچھے نہیں رہتے بلکہ اپنی اپنی سطح پر زیادہ سفاکی سے وارداتیں ڈالتے ہیں۔ مقامی طور پر سیاسی طاقت اور دولت کا ارتکاز انہیں مقامی سیاست میں تقریباً اجارہ دار اور ناگزیر بنا دیتا ہے اور یوں اس شیطانی جمہوری جگاڑ کی سنو بالنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک قدرت کا قانون حرکت میں نہیں آ جاتا۔

پاناما کے آغاز میں میرا تکیہ کلام تھا کہ یہ لوگ قانون نہیں قانون قدرت کی پکڑ اور لپیٹ میں آ چکے ہیں۔تقریباً ہفتہ دس دن پہلے کسی انتہائی ذمہ دار شخص نے مجھے بتایا کہ فلاں فلاں ن لیگیوں کی لمبی چوڑی بے نامی جائیدادوں کی نشان دہی ہو چکی اور عنقریب ان کے گرد بھی احتسابی گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔

ان میں سے ایک نام سن کر مجھے کچھ حیرت ہوئی اور میں نے کہا ’’یہ وہی مسکین یتیمڑا سا ہے ناں جو مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر انتہائی دھیمے دھیرے مہذب اور پولے پولے انداز میں اپنی قیادت کا دفاع کرتا ہے؟‘‘

ان صاحب نے ہنستے ہوئے کہا …’’جسے آپ مسکین یتیمڑا اور مہذب کہہ رہے ہیں، وہ بہت بڑا وارداتیا ہے جس کی منی لانڈرنگ، ناجائز اثاثوں اور تین سی این جی سٹیشنز کی انکوائری ہو رہی ہے۔

لاہور کے ایک قریبی شہر میں اس کا حلقہ ہے کبھی لانگ ڈرائیو کا موڈ بنے تو چکر لگا کر دو چار لوگوں کے سامنے اس کا نام لے کر دیکھیں، لوگ بتائیں گے کہ یہ کیا شے ہے‘‘مدتوں لکھا اور بولا کہ یہ لوگ ملک کے اقتصادی بھانڈے کا پیندا ہی کھا گئے ہیں، سمندر بھی ڈالو تو یہ بھانڈا خالی ہی رہے گا اور دوسری گزارش یہ رہی کہ اگر کوئی کچھ بھی نہ کرے، صرف لوٹ مار ہی بند یا کم ہو جائے تو یہ ملک خود کفیل ہو سکتا ہے۔لوٹ مار کا گراف منہ کے بل گر رہا ہے۔

اقتصادی بھانڈے کا پیندا تقریباً لگایا جا چکا۔(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے