کزن کی شادی اور جنید کی پھانسی کی خبر

تنہائی ہے، خاموشی ہے اور اس خاموشی میں باہر موسیقی کی آواز یوں ہے جیسے راشد رحمان کے قتل کے بعد اس کی گلی میں ڈھول بجنے کو محسوس کیا گیا ہو گا۔ کوئی خوش ہوا اور کوئی چپ چاپ سنتا رہا کیونکہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ زندگی میں کبھی کبھار خوشیاں دستک دینے چلی آئیں تو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ کیا قیامت آنے والی ہے اور آ ہی گئی جب میں اپنے عزیز دوست کی شادی میں شرکت واسطے تیار ہونے لگی تھی تو جنید حفیظ کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ مردم بیزار لوگ جھمکے سامنے رکھے تب سے یہی سوچ رہے ہیں کہ جنید کی غلطی کیا تھی؟

میڈیکل کالج جانا؟ کنگ ایڈورڈ چھوڑنا؟ فل برائٹ ملنا؟ یا پاکستان واپس لوٹنے کا فیصلے کرنا؟ اکثر لوگ مجھے کہہ دیتے ہیں کہ آپ تو ملتان سے نہیں آپ لوگ تو آباد کار ہیں پھر بھی ملتان سے کوئی بری خبر آئے تو مجھے خوامخواہ شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے اور برا بھی لگتا ہے، جانے کیوں میں چاہتی ہوں اس شہر سے اچھی خبریں باہر جائیں اور اگر میری سوچ ٹھیک ہوتی تو یہ اچھی خبر ہی تو تھی کہ پھانسی کی سزا سننے پہ کچھ وکلاء نے بےانتہا مسرت کا اظہار کیا اور خوشیاں منائیں۔ یہ پھانسی کی سزا اور خوشیاں منانا کوئی نئی بات نہیں، یہ خوشیاں راشد رحمان کو مار کر بھی منائی گئیں تھیں۔ ہمارا تعلق اگر اس گروہ سے ہوتا تو ہم بھی خوش ہوتے لیکن ہم خوش نہیں ہیں، ہم سے آزادی کا ، خوش رہنے کا ، زندگی جینے کا اور زندگی کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ اس فیصلے میں کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ تلخیوں کا سامنا کرتے کرتے یہ تو ہم جان ہی جاتے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ کیا ہونا تھا اور پرامید نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتے بھی ہیں کہ ابھی تو ہائی کورٹ ہے اور اس سے آگے سپریم کورٹ ۔لیکن پھر بھی ہم سرپھرے ہم شرپسند ہم بےوقوف اداس ہیں، خفا ہیں خود سے بھی اور اس معاشرے سے بھی جو یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ زندہ رہنے کیلئے کچھ اور بھی درکار ہے اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے۔

کُل ملا کر ڈیڑھ سو سرخے، سوا سو خونی لبرل اور پچھتر کے قریب لبرل فاشسٹ ہیں جو طےشدہ امور، نصاب اور لائی لگ طریقوں پہ چلنے کے بجائے الگ سوچتے ہیں اور ان کو قابو کرنے کے تمام تر حربے آزمائے جا رہے ہیں لیکن یہ ہیں کہ کسی کے قابو نہیں آتے۔ پچھلے قابو میں آتے ہیں تو اگلے ان کی جگہ لینے چلے آتے ہیں۔ کچھ ہیں جو نہ اِس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں بس ہر روشن فکری کو سراہتے ہیں کہ چلو اچھی بات ہے کوئی بول رہا ہے سوچ رہا ہے کسی ناانصافی پہ آواز اٹھا رہا ہے بلاوجہ احمدیوں کی بھینس کو انڈہ نہیں مار رہا البتہ ان ایک ہزار لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ خود ہی ایک پیج پر نہیں ہیں تو بھلا آپ کو کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں پھر بھی کبھی کوئی بکواس کرنے لگ جاتا ہے کوئی کچھ لکھ دیتا ہے یا بول دیتا ہے تو سرزمینِ شاد باد کے طول و عرض میں ایک پریشانی شروع ہو جاتی ہے کہ اس کو کیسے چپ کرایا جائے؟ غائبستان کے حوالے کر دیا جائے؟ ٹرولز چھوڑ دیے جائیں؟ کسی کو ہاسٹل کے گندے پانی سے تکلیف ہے ، فیس میں اضافے کی پریشانی یا بدعنوانی دکھ دے رہی ہے تو رہے البتہ تکلیف سہنے والا اگر بولنے کی علت میں مبتلا ہو کر نعرے بازی کرنے لگے تو یہ نری بغاوت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ بغاوت سے قابو نہیں ہو رہے تو اہانت کا الزام کافی ہے۔

مجھے اسسٹنٹ کمشنر کے الفاظ یاد آتے ہیں پھر اس لونڈے کے جو مشتعل انداز میں کہتا ہے کہ محمد نام رکھنے سے کوئی مسلمان نہیں ہو جاتا۔ دراصل کُل ملا کر یہی ہے جس کا سامنا ہمیں کرنا ہے کہ کوئی کیسے مسلمان ہے اور کیسے نہیں اس کا فیصلہ باقی لوگوں کو کرنا ہے، کسی بولنے والے سے ذاتی پرخاش و عناد ہے یا عقیدے کی محبت ہے جس کبھی یہاں کوئی استاد قتل ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی پرنسپل، کبھی کوئی مشال ان کا نشانہ بنتا ہے تو کبھی کوئی جنید پر ان کا شوق پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس انفرادی اور اجتماعی پاگل پن میں بلاگرز کے خلاف مہم چلانے اور تحریک لبیک سے کام نکلوانے واسطے حصہ ڈالنے پہ ہم ان کے بھی شکرگزار ہیں جو ایک ادارہ نہیں خاندان ہیں کیونکہ ہم بھولے نہیں کہ ہمارے دوستوں کو کس کرب سے گزرنا پڑا لہذا سلام ان پہ جنہوں نے ہمیں درندوں کے سامنے پھینک دیا اور کیا خیر مانگیں سوائے یہ کہ اے عشق ہمیں برباد نہ کر۔

ہمارے وزیراعظم کو تازہ ترین ٹوئیٹ کے مطابق دور کا ہندوتوا نظر آ رہا ہے لیکن قریب کی نظر ان کی بھی کمزور ہے، کچھ دن پہلے ایک محترم وزیر بھی اس سے ملتی جلتی تجویز دے چکے کہ تمام صارفین کو روزانہ احادیث بھیجی جائیں۔ ہم یہ تو جان گئے ہیں کہ کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے البتہ ہم جیسے سرپھرے چونکہ تنہائی کے شوقین بھی ہیں اور اس کرب سے آشنا بھی اس لیے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اتنے سال سے جنید حفیظ جس قیدِ تنہائی کا شکار ہے اس کا اندازہ بھی کسی نے لگایا ہو گا کہ یہ کیسی اعصاب شکن اذیت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اپنا ٹائم آئے گا پر سالا شاید ایسے ہی آئے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے