لکھنے والے دو گروہ

لکھنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے پڑھنے والوں کوبہتر دنیا کا خواب دکھاتے ہیں، ان کے تخلیقی ذہن سے ایسے آئیڈیاز پھوٹتے ہیں جو سماج کے ارتقائی عمل کو رواں کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شخصیات کی پوجا کی بجائے علم اور جستجو کی راہ پر لگاتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ ان کے سب خواب پورے ہوں۔ لیکن وہ اپنے کام میں مسلسل جٹے رہتے ہیں۔ عربی محاورے کے مطابق وہ بہتری کی انتہائی صورت کو مجسم دیکھنے کی خواہش کرتے ہیں تاکہ سماج مکمل نہیں توکم ازکم اوسط درجے سے اوپر اٹھ سکے۔

یہ لوگ کسی وقتی صورت حال سے مایوس نہیں ہوتے، کسی شخصیت کے سحر میں وہ اس انداز میں جکڑے ہوئے نہیں ہوتے کہ اس کے جانے یا بدل جانے سے وہ اپنے بہتر سماج کے خواب سے بھی دستبردار ہو جائیں۔ وہ ہر حال میں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ توازن کے ساتھ اپنی بات کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان تمام قوتوں پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں جوکسی بھی شکل میں انسانوں کو غلام رکھنا چاہتی ہیں۔ لوگوں کے افکار پران کی مسلسل ہیمرنگ کے دُوررَس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ طویل اور صبر آزما عمل ہے۔ ایک لمبی دوڑ ہے۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو یہ کشٹ اٹھانے سے گریز پا رہتے ہیں۔ وہ لمحہ موجود میں طاقت کے محور کے آس پاس رہنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ جو اس محور کا قرب حاصل نہ کر سکیں، وہ طاقتور گروہوں کے بیانیے کی تائید کرتے ہیں۔

یہ گروہ سماج سے جڑے حقیقی سوالات میں الجھنے کی بجائے لوگوں کو میٹھی گولیاں دینے کا کام کرتا ہے۔ ان کی تحریروں میں کوئی بڑا خیال اورایسا آئیڈیا نہیں ہوتا جو سماج کی ہیئت میں کوئی بڑی اور بہتر تبدیلی لا سکے۔ وہ اپنے لفظوں کو اسٹیٹس کو کی حامل قوتوں کی ترجمانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی کارگاہِ فکر سے اُن طاقتوروں کے لیے دلائل پھوٹتے ہیں جو لوگوں کو غلامی میں رکھناچاہتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ غلامی کامفہوم آج کی دنیا میں ماضی کی نسبت مختلف ہے۔

غلامی کی اس جدید شکل کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کو ایسے وکیلوں کا ایک ہجوم میسر ہے۔سہولیات اورطاقت کے مراکز کی براہ راست یا بالواسطہ پشت پناہی انہیں حاصل رہتی ہے۔ یہ اپنے آہنگ میں اکثر خوداعتمادی کا پہاڑ محسوس ہوتے ہیں۔ دراصل یہ خود اعتمادی نہیں بلکہ پشت پر طاقت کی موجودگی کا پرفریب احساس ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اب کوئی بھی خطرہ نہیں۔

لیکن طاقت کی نفسیات بڑی خودغرضانہ ہوتی ہیں۔ وہ ان پُراعتماد بھونپوؤں کو بدلنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے۔ گویا اِن کی حیثیت اُن کے نزدیک ٹشو پیپرزکی سی ہے۔ استعمال کیا اور بِن کر دیا۔

خود فریبی میں مبتلا ان دوسری قسم کے لوگوں میں سے چند ایک کو کبھی نہ کبھی زیاں کا احساس تو ہو جاتا ہے لیکن اس وقت ٹرین ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان کے ”اصولی موقف“ پر کوئی کان نہیں دھرتا اور وہ تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جاتے ہیں۔

یہ دوگروہ ہمیشہ آمنے سامنے رہتے ہیں اور یہ جنگ چلتی رہتی ہے۔ پہلے گروہ کے لوگ البتہ تاریخ میں امر ہوتے ہیں۔ سمجھنا چاہئے کہ بڑا لکھنے والا وہ نہیں ہوتا جو لوگوں کومحض انٹرٹین کرے،ہاں وہ اچھا کاریگرضرور ہو سکتا ہے ۔ بڑا لکھنے والا وہ ہے جو سماج سے جڑے جنوئین سوالات کو ایڈریس کرتا ہے۔ وہ حقیقی سوالوں سے پہلو تہی کر کے کبھی بھی نہیں گزرتا۔وہ خود کو انسانی برادری کا ایسا فرد سمجھتا ہے جس کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اپنی ذات کے گنبدِ بے در میں وہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ اس کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ منثور ہوں یا منظوم،جاودانی ہوتے ہیں۔ وہ مرتے نہیں بلکہ رہتے زمانوں تک انسانوں کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے