کچھ کہنے کی ہمت نہیں

بات کھل کر واضح الفاظ میں بیان کرنے کی ہمیں عادت نہیں۔ ناک کو ہاتھ گھماکر پکڑتے ہیں۔ کسی کی برائی یا بدخوئی کرتے ہوئے احتیاط کا یہ رویہ کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ حیرت مگر اس وقت ہوتی ہے جب تعریف کرتے ہوئے بھی اصل کو بیان نہیں کیا جاتا۔ محبوب کے خوب صورت دانتوں کو دُر، چہرے کو گلاب اور جسم کے خدوخال کو صراحی سے تشبیہ دے کر جان چھڑالی جاتی ہے۔ حقائق کو استعاروں کے ذریعے بیان کرنے کی یہ عادت درباری ثقافت کا ورثہ ہے جسے سامراج اور اس کی سرپرستی میں پروان چڑھائی اشرافیہ کی مسلط کردہ گھٹن نے مزید طاقت ور بنادیا ہے۔

مشرف دور کے آخری مہینوں میں لیکن محسوس ہوا کہ ہمارا میڈیا آزاد ہوگیا ہے۔ آزادیٔ فکر واظہار کے اس ماحول کو مزید جاندار بنانے کے لئے جاری رہی عدلیہ بحالی کی تحریک۔ آخر میں لیکن نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔ ’’آنے والی تھاں‘‘ پر ہم واپس آچکے ہیں مگر یہ اعتراف کرنے کی جرأت نہیں دکھاپارہے کہ ’’وہ دن ہوا ہوئے…‘‘
کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہوئی پریس ریلیز اور اس کے ردعمل میں وزیر اعظم ہائوس سے آئے جوابِ شکوہ کے بعد ستے خیراں کا تاثر پھیلائے رکھنے کے لئے کھال بہت موٹی، ہڈی نہایت ڈھیٹ اور ذہن کافی بودا ہونا چاہیے۔ میری بدقسمتی کہ ان تینوں خصوصیات سے محروم ہوں۔ جائوں تو کہاں جائوں۔
ٹی وی لگائیں یا اخباروں کے کالم پڑھیں۔ کوئی ایک صاحب علم وہنر انتہائی جی دار ہونے کے باوجود بھی یہ کہتا سنائی نہیں دیتا کہ بہت ہوگئی جمہوریت- جمہوریت۔ وقت آگیا ہے کہ کوئی ’’دیدور‘‘ آگے بڑھے اور ڈنڈا چلاتے ہوئے ہمیں ہجوم سے قوم میں بدل کر میرٹ پر مبنی بہتر حکومت کی راہ پر ڈال دے تاکہ لوگوں کو سکون میسر آئے۔ انہیں تعلیم اور علاج معالجے کی وافر سہولتیں ملیں اور ہمارے نوجوان دنیا کے نقشے پر اپنے ٹھکانے تلاش کرتے نہ پائے جائیں۔
بارہا بات دہرائی جاتی ہے تو صرف اتنی کہ نواز شریف کے پاس اب بھی وقت ہے۔ انہیں چاہیے کہ سرجھکاکر اس ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہوجائیں جو ان کی کابینہ یا جماعت کے لوگوں نے مل بیٹھ کر طے نہیں کیا بلکہ اس ادارے سے آیا ہے جہاں وطنِ عزیز کے طویل اور قلیل المدتی مفادات کے حصول کے لئے بہت سوچ بچار کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم کو ’’بندے کا پُتر‘‘ بن جانے کے مشورے دینے والے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ اگر لاہور سے آکر اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم بننے والا سیاست دان ڈاکٹر عاصم کے ساتھ وہی سلوک کرے جس کی اس سے توقع کی جارہی ہے تو ذکر بعدازاں ان کے برادرِخورد کی ’’گڈگورننس‘‘ کابھی شروع ہوجائے گا۔ احتساب کو صرف سندھ تک محدود رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ "Balance”قائم کرنے کے لئے کچھ ڈاکٹر عاصم صرف پنجاب ہی میں نہیں مرکزی کابینہ سے بھی ڈھونڈنا پڑیں گے۔
پنجاب کے ممکنہ ڈاکٹر عاصموں کا میں اسلام آباد بیٹھ کر صحیح طورپر اندازہ نہیں لگاسکتا۔ حکمرانوں کے اس شہر میں لوگوں سے ملنا جلنا ویسے ہی بہت کم کررکھا ہے۔ چند محفلوں میں لیکن پرانی دوستیوں کی وجہ سے جانا پڑتا ہے اور جہاں بھی گیا تذکرہ صرف اسحاق ڈار کا ہوا۔ بڑے کاروباری حضرات، اعلیٰ سرکاری نوکریوں سے چند ماہ یا سال قبل ریٹائرڈ ہوئے لوگ اور ورلڈ بینک وغیرہ کے لئے Consultanciesکا دھندا کرنے والے متفق نظر آتے ہیں کہ صرف ایک بات پر اور وہ یہ کہ ’’نواز شریف کے سمدھی‘‘ اسحاق ڈار نے پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
پاکستان کے امیر لوگوں سے بے رحمانہ انداز میں محاصل اکٹھاکرنے کی بجائے اسحاق ڈار غیر ملکی اداروں سے قرض لئے چلے جارہے ہیں۔ پھر ان کے کچھ فیصلے، جیسے IPPsکو گردشی قرضے کی یکمشت ادائیگی اور یورو بانڈز کابھاری سود پر اجراء ایسے معاملات ہیں، جن کا فائدہ مبینہ طورپر نواز شریف کے چند بلکہ شاید ایک ہی چہیتے کو پہنچا۔ اس لئے ضرورت ہے آزادانہ تفتیش کی۔ وہ تفتیش مگر کیسے ہو؟
ڈاکٹر عاصم کو نوے روز تک قید میں رکھ کر اعترافی بیانات اگلوانے کی سہولت موجود تھی PPOکی۔ پیپلز پارٹی کی بھرپور معاونت سے بنایاگیا یہ قانون دہشت گردی کے ’’سہولت کاروں‘‘ کی گرفتاری آسان بنادیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مبینہ ’’سہولت کار‘‘ جب گرفتار ہوجاتا ہے تو بیانات ایسے دیتا ہے جو بالآخر NABوغیرہ کا کام آسان کردیتے ہیں۔ اسحاق ڈار کو ہاتھ کس قانون کے تحت ڈالیں۔ ’’دہشت گردوں کے سہولت کار‘‘ وہ اس لئے نہیں ٹھہرائے جاسکتے کہ اکثر جمعراتیں لاہور کے داتا دربار میں روتے ہوئے گزارتے ہیں اور علی ہجویریؒ کے عرس کے دوران غریبوں میں بانٹنے کے لئے بتائی دیگوں کی تعداد سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اسے کم از کم دگنا دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسحاق ڈار کے بارے میں اسلام آباد میں پھیلتی مسلسل سرگوشیاں اور بدگمانیاں اقتصادیات کے علم کے بارے میں قطعی جاہل مجھ ایسے شخص کو پیغام دیتی ہیں تو صرف اتنا کہ وطن عزیز کی طویل اور قلیل المدتی ضرورتوں کے بارے میں مسلسل سوچ بچار کرنے والے ان دنوں بہت فکر مند ہیں۔
آصف علی زرداری نے شوکت ترین اور شاہ محمود قریشی کی بھرپور معاونت سے کیری-لوگر نام کا بل امریکی کانگریس سے منظور کروایا تھا۔ اس بل کے ذریعے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے صرف اپنے ریاستی وسائل صرف نہ کرنا پڑے۔ زیادہ ترخرچہ بلکہ اس ضمن میں Coalition Support Fundکے ذریعے پورا ہوتا رہا۔ اب اس بل کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔
اوبامہ نے دسمبر 2014ء تک افغانستان سے لاتعلق ہوجانا تھا۔ کابل اور اس کے گردونواح میں لیکن چند واقعات ہوگئے۔ امریکی فوج کی ایک مؤثر تعداد افغانستان میں اب بھی موجود ہے۔ اسے سامانِ رسد پہنچانے کے لئے مگر پاکستان کے زمینی راستوں پر ہی انحصار باقی نہیں رہا۔
ہمارے ہاں کاآپریشن ضربِ عضب مگر اپنے حتمی انجام تک ابھی نہیں پہنچا۔ فوج جب بیرکوں سے نکل کر کراچی، بلوچستان اور شمالی وزیرستان جیسے علاقوں میں مصروف ہوجائے تو طے شدہ بجٹ سے کہیں زیادہ رقوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے ریاستی خزانے سے اس رقم کی مناسب فراہمی ممکن نہیں۔ ویسے بھی نواز حکومت اگر ریاستی خزانے کو صرف دہشت گردی کی جنگ پر خرچ کردے تو 2018ء میں اسے ووٹ نہیں ملیں گے۔ اسے تو میٹرو بسیں چلانی ہیں، سڑکیں بنانی ہیں، لوڈشیڈنگ کو ختم کرنا ہے تاکہ Feel Goodصورت حال بنے اور ’’اک واری فیر-شیر‘‘ کے امکانات روشن ہوں۔ وقت لہذا کم ہے اور مقابلہ سخت۔
خدا کرے کہ امریکہ کو سمجھ آجائے کہ داعش صرف عراق اور شام تک محدود نہیں۔ خیبر کے اس پار افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں بھی بہت تیزی کے ساتھ طالبان کی جگہ لے رہی ہے۔ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے آپریشن ضربِ عضب کا تسلسل انتہائی ضروری ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمیں ضرورت ہے Coalition Support Fundکے حصول کے لئے کسی نئے معاہدے کی۔ واشنگٹن یہ بات سمجھ نہ پایا تو اسحاق ڈار کو نواز شریف کا ڈاکٹر عاصم بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ کہنے کی ہمت مجھ میں نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے