خیبرپختونخوامیں کابینہ کی تبدیلی اورتوسیع

اقتدارکی راہداریوں میں موجودگی ، خاندانی پس منظر ،لابیزکاموثرہونا اور بنی گالہ کے ساتھ بہترین تعلقات، خیبرپختونخوامیں کابینہ کی تبدیلی اورتوسیع کاذریعہ بنی، جس میں جس کا رتبہ جتنابھاری تھا، اتناہی بڑامحکمہ اس کے ذمے سونپ دیاگیا، کابینہ میں چار وزیروں سے عہدے لیکر انہیں نئے محکموں کے قلمدان دئیے گئے، اسی طرح ایک مشیر اورمعاون خصوصی کے محکمے بھی تبدیل کئے گئے ، صوبائی حکومت نے جہاں دو نئے وزراء کو کابینہ میں جگہ دی، وہیں ایک مشیر اورآٹھ معاونین خصوصی کوبھی اراکین اسمبلی سے کابینہ کاحصہ بنایاگیا۔

[pullquote]کابینہ میں جوبھاری اس کی باری……[/pullquote]

ایوان کی راہداریوں میں سب سے مضبوط سمجھے جانے والے صوبائی وزیر صحت ہشام انعام اللہ کو محکمہ سماجی بہبود کاقلمدان سونپ دیاگیا ، کہاجاتاہے کہ لکی مروت کے سیاسی خانوادے سلیم سیف اللہ کے قریبی رشتہ دارہونے کے باعث ہشام انعام اللہ کے گزشتہ ایک سال سے محکمہ صحت میں اہم سمجھے جانے والے عمران خان کے قریبی رشتہ دار نوشیروان برکی سے شدیداختلافات تھے اور محکمے کے مطابق ان کو ایلوپیتھک ادویات سے ہٹاکر ہومیوپیتھک ادویات کا محکمہ دیاگیا ۔

محمودخان کے مخالف سہی لیکن عاطف خان گروپ کے انتہائی قریبی شخصیت شاہ محمدخان کےلئے شہرام ترکئی اور عاطف خان نے ایڑی چوٹی کازورلگایااوران کو اقتدارکی مسندتک پہنچایا ان کے متعلق دلیل پیش کی گئی کہ جب پرویزخٹک کابھائی لیاقت خٹک ایریگیشن کامحکمہ سنبھال سکتاہے، تو شاہ محمدٹرانسپورٹ کا محکمہ کیوں نہیں، معدنیات کے وزیر امجدعلی خان کےلئے تمام ترپتے وزیراعلیٰ خوداستعمال کررہے تھے، اسلام آباد کی ایک اہم شخصیت نے ان کے متعلق شکایت بھی کی تھی لیکن وزیراعلیٰ نے انہیں معدنیات سے ہٹاکر ان کے سابق محکمے ہاﺅسنگ کاقلمدان سونپ دیا، محکمہ صحت میں نوشیروان برکی کے ساتھ کوئی کام کرنے کےلئے راضی نہیں تھا جس کے لئے شہرام ترکئی کو آخر کار راضی کرلیاگیا ، اسی طرح مواصلات وتعمیرات کے وزیراکبرایوب سے جب ان کے محکمے کا قلمدان لیاجارہاتھا توانہوں نے بنی گالہ کے راہداریوں میں اہم سمجھے جانےوالے اپنے بھائی یوسف ایوب سے رابطہ کیا ، توانہیں بتایاگیاکہ اسلام آبادکی کچھ شخصیات ان سے خوش نہیں لیکن مواصلات وتعمیرات نہ سہی، تعلیم کی وزارت آپ کو مل جائےگی۔

تعلیم کےلئے وزیراعلیٰ کے مشیر ضیاءاللہ بنگش سے محکمے کے علاوہ کابینہ کے بعض اراکین بھی خوش نہیں تھے ، محکمے کی تبدیلی سے دو دن قبل جب رپورٹرنے ان سے بات کی توانہوں نے دکھی دل کے ساتھ کہاکہ تعلیم کامحکمہ مجھے بالکل پسند نہیں میں خود اسے چھوڑناچاہتاہوں اور دو دن بعدانہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مشیرکاعہدہ دیاگیا۔

کامران بنگش کااگرچہ خاندانی پس منظرتونہیں لیکن بنی گالہ اور وزیراعلیٰ ہاﺅس میں ان کےلئے سرگرم لابیز نے پہلے ان کےساتھ محکمہ تعلیم کاوعدہ کیا لیکن یوسف ایوب اپنے بھائی اکبرایوب کےلئے پہلے ہی وہ قلمدان لے چکے تھے توانہیں بلدیات کا محکمہ دیاگیا ۔

[pullquote]نئے مشیروں اور معاون خصوصی کی کارکردگی کیاہے؟؟[/pullquote]

کابینہ میں شامل اعلیٰ تعلیم کے مشیر خلیق الرحمن سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور ان کے داماد عمران خٹک کے دست راست سمجھے جاتے ہیں، سابق حکومت میں ان کے پاس سب سے اہم ترقی ومنصوبہ بندی کامحکمہ تھااس دفعہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے مشیرکے عہدے پر مسندنشین کیاگیا، کابینہ میں شال آٹھ نئے معاونین خصوصی میں اورکزئی کے غازی غزن جمال سیاست کی راہداری کے ماہر غازی گلاب جمال کے صاحبزادے ہیں ، آزادحیثیت سے منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اس شرط پر شمولیت اختیارکی تھی کہ انہیں ترقی ومنصوبہ بندی کا محکمہ دیاجائے گا لیکن ان کے حصے میں ایکسائز اینڈٹیکسیشن کامحکمہ آیا، دیر کے تمام اراکین اسمبلی کے شدیددباﺅکے نتیجے میں آخر وزیراعلیٰ محمود خان نے سابق ایس پی شفیع اللہ خان کو اینٹی کرپشن کا محکمہ دیکر کسی حد تک ان کو خاموش کرنے کی کوشش کی، جیل خانہ جات کے لئے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی تاج محمدترند کےلئے بھی بساط کی تمام مہریں ان کے والد یوسف ترند نے اسلام آبادمیں ہلائی تھیں، پیپلزپارٹی سے شامل ہونےوالے مانسہرہ کے احمد حسین شاہ بھی بنی گالہ کے منظورنظرتھے، اوقاف کےلئے ظہورشاکراورمعدنیات کے لئے عارف احمدزئی کاانتخاب وزیراعلیٰ نے خودکیا، کیونکہ وہ کابینہ میں یہ محکمے کسی اورکودینے کی بجائے ایسی شخصیات کودیناچارہے تھے، جوان کی ہاں میں ہاں ملائے ، کہاجاتاہے کہ معدنیات کے محکمے کےلئے اسلام آباد سے ایک اعلیٰ شخصیت نے ان کی سفارش کی تھی ۔

[pullquote]صوبائی حکومت کا موقف ۔۔[/pullquote]

صوبائی اسمبلی میں مختلف وزراء نے نومنتخب کابینہ اراکین کوجہاں خوش آمدیدکہاہے، وہاں وزیرقانون سلطان محمد خان اوروزیراطلاعات شوکت یوسفزئی کے مطابق تمام فیصلے میرٹ پرکئے ہیں اورحکومت اپنی پارٹی فیصلوں کے مطابق عہدے تبدیل کرنے کااختیاررکھتی ہے ۔

[pullquote]خواتین کہاں ہیں؟؟[/pullquote]

مخصوص نشستوں پر آنے والی دوخواتین اراکین عائشہ بانو اورملیحہ علی اصغر کو طویل عرصے سے میٹھی گولیاں دی جارہی تھیں کہ انہیں اورنہ سہی سماجی بہبود یا بہبودآبادی کا قلمدان دیدیاجائے گا، لیکن اہم فیصلوں کے وقت ان دونوں کومکمل طو رپرنظراندازکیاگیا،عائشہ بانو نے رابطہ کرنے پرتصدیق کرتے ہوئے کہاکہ کابینہ کے دیگر فیزمکمل ہوچکے ہیں، تیسرے فیزمیں کسی بھی خاتون رکن کو کابینہ کاحصہ بنالیاجائے گا۔

اس وقت خیبرپختونخوااسمبلی کی26مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین میں سے19کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے