بے ہمتوں میں ہمت کہاں سے آئے؟

گندم یا آٹے کی قلت کے بارے میں رویا جا سکتا ہے۔ چینی کی قیمت کی اڑان ہو تو اس پہ بھی دہائی دی جا سکتی ہے۔ الغرض مہنگائی پہ بجا طور پہ باقاعدہ ماتم منعقد کیا جا سکتا ہے اور اسے کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارا مسئلہ ذرا مختلف ہے۔ عمر کے اس حصے میں ہم نے آٹے یا گھی پہ کیا رونا ہے۔ ہمیں جو قلتیں درپیش ہیں وہ اور نوعیت کی ہیں لیکن ہمارا معاشرہ ایسا بن چکا ہے کہ اُن قِلتوں کے بارے میں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ معاشرے کی مجبوریاں آڑے آ جاتی ہیں۔

عمر کے لحاظ سے اب وقت وہ آن پہنچا ہے کہ ایک روٹی صبح کھاتے ہیں اور ایک شام کو۔ چینی کا استعمال غذا میں نہیں ہے۔ اس لئے نہیں کہ کوئی شوگر وغیرہ کا مسئلہ ہے۔ بس اس قسم کی چاشنی اچھی نہیں لگتی۔ بلیک کافی کا استعمال ہوتا ہے اور اُس میں تھوڑی سی شکر بھی ڈَل جائے تو منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ نہ آٹے سے زیادہ سروکار ہے نہ شکر سے۔ اِن کی جگہ جن اشیاء پہ گزارہ چلتا ہے اُن کے بارے میں سرِ عام بات نہیں ہو سکتی۔

شاعر ہوتے تو ان موضوعات پہ غزل در غزل کہہ دیتے، لیکن ظاہر ہے نہ شاعری کا ہنر ہے نہ گانے کا۔ اچھا گانا پسند ضرور ہے لیکن جان بھی بچانی ہو تو صحیح سُر نہیں لگ پاتے۔ سُر کا دَین یا محرومی قدرت کے کام ہیں۔ سُر نہ ہو تو آپ سَر کے بل کھڑے ہو جائیں وہ نہیں لگتا۔ رہ گئی نثر تو اُس حوالے سے بھی بے شمار مجبوریاں آن کھڑی ہوئی ہیں۔ یوں تو آزادیٔ اظہار پہ کوئی پابندی نہیں لیکن جیسے عرض کیا‘ معاشرے کی تشکیل ایسی ہو چکی ہے کہ موضوعات کی ایک لمبی فہرست ہے جن پہ اظہارِ رائے تو دُور کی بات کچھ ذکر بھی نہیں ہو سکتا۔ بس اشاروں کنایوں سے بات کرنا پڑتی ہے۔

دو چیزوں سے اللہ بچائے، بے قدر دوستوں اور بے ہمت حکمرانوں سے۔ ہمارا یہ مسئلہ دونوں اطراف سے رہا ہے۔ عمر کا زیادہ حصہ بے قدروں سے پالا پڑا اور اُن کی وجہ سے دل کی داستان بس ویسے ہی رہی۔ بے ہمت حکمرانوں نے بھی اس ملک کا ستیاناس کر دیا۔ دعوے تو یہاں بلند بانگ ہوتے ہیں لیکن اصل میں ان بے ہمتوں سے چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پہ جنرل ضیاء الحق کو گئے تین دہائیاں ہو چکی ہیں لیکن اَب بھی خطابت و نثر میں یہ وتیرہ بنا ہوا ہے کہ ہر برائی کا ملبہ جنرل ضیاء الحق کے حصے میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر معاشرے کا کچھ بگاڑ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوا تو اُس کی اصلاح کرنے کیلئے تین دہائیاں کافی نہیں تھیں؟ لیکن نہیں، فیشن بن چکا ہے کہ معاشرے کی کمزوریوں کا ذمہ دار جنرل مرحوم کو ہی ٹھہرایا جائے۔

اقتدار کے پہلے دو سالوں میں جنرل پرویز مشرف سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جو چاہتے کر سکتے تھے۔ دونوں بڑی پارٹیاں اُن کے سامنے لیٹ چکی تھیں اور تب کے مولوی صاحبان اپنا فائدہ سوچتے ہوئے جنرل مشرف کی طرف راستے بنا رہے تھے۔ جنرل صاحب بس اتنا ہی کر سکے کہ اُن کے زمانے میں سطحی قسم کی آسانیاں بڑے شہروں میں آ گئیں لیکن معاشرے کا مسخ شدہ چہرہ وہ درست نہ کر سکے۔ سچ جانیے تو اُن کی یہ سوچ بھی نہ تھی کہ اُس چہرے کو درست کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔ وہ وقت ٹپاتے گئے حالانکہ حالات تب ایسے تھے کہ اگر وہ چاہتے تو اِس ستم رسیدہ ملک کو ذرا مختلف راستوں پہ ڈال سکتے تھے۔

ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ اُن کے دائیں بائیں جرنیل قدامت پسند سوچ کے مظہر تھے۔ جنرل عثمانی صاحب ، جنرل محمودصاحب، ہمارے کورس میٹ جنرل احسان صاحب اور ہی طرزِ فکر رکھتے تھے۔ احسان نے تو ایسا نہ کیا لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد محمود نے لمبی داڑھی رکھ لی اور عثمانی نے بھی۔ شاید اِن کے ہوتے ہوئے جنرل مشرف اپنی روشن خیالی کو زیادہ دور تک نہ لے جا سکے۔ اُس کے بعد القاعدہ اور افغانستان کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا اور امریکا نوازی سے پیدا ہونے والے مسائل پاکستان کی تقدیر کا حصہ بن گئے۔

ہمارے نام نہاد جمہوری حکمران‘ اِن کا مسئلہ کیا رہا ہے؟ اِن کی ذاتی آسائشیں اور عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ان کا رہن سہن بادشاہوں اور شیخوں سے آگے ہے۔ دولت سمیٹنے کے طریقے اِنہوں نے کیسے کیسے ڈھونڈے اور استوار کیے۔ لیکن اپنی عیاشیاں جتنی بھی تھیں قوم کیلئے آسانیاں پیدا نہ کر سکے۔ معاشرے کی قدغنوں کو تو ذرا کم کر جاتے، فرسودہ قوانین کا زور توڑ جاتے۔ عوام کی دیگر تکالیف اپنی جگہ لیکن گھٹن زدہ ماحول میں سانس لینا تو ذرا آسان ہو جاتا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا، ذاتی دولت کے انبار لگتے رہے اور عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل بھی جاری رہا۔

کہنے کو تو موجودہ بندوبست کو گزر ے ہوئے نام نہاد جمہوری ادوار سے بہتر ہونا چاہیے تھا لیکن یہ جو حکمران ہمارے نصیب میں آئے ہیں یہ تو پچھلوں سے بھی گئے گزرے نکلے ہیں۔ جمہوری وارداتیوں کو کم از کم حکمرانی کا کچھ تجربہ تھا۔ معاشی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ معاشی مواقع بھی پیدا کیے۔ اپنی عیاشیوں پہ توجہ دی لیکن عوامی محاذ پہ بھی کچھ کرتے گئے۔ ان آنے والوں نے تو سب کچھ کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ عمومی سوچ یا جسے ویژن کہتے ہیں وہ سرے سے نہیں۔ ٹیم بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ کوئی تو ان میں ڈھنگ کا آدمی ہو لیکن ڈھونڈنے سے کوئی نہ ملے۔ چلیے اعلیٰ معاشی سوچ نہیں عوامی سوچ تو ہو۔ جہاں کچھ کر سکتے ہیں وہاں تو کچھ کرئیے۔ آسانیاں پیدا کریں۔ ملک کا ماحول بہتر کریں۔ ایسے اقدامات کریں کہ معاشرے کی سوشل گھٹن ذرا کم ہو۔ لیکن اس بارے تھوڑی سی سوچ بھی نہیں۔

اپنے حکمرانوں سے ہمیں ایک سوال کرنا چاہیے، کیا آپ قائد اعظم سے بڑے لیڈر ہیں؟ قائد اعظم کی حیات میں پاکستان کا ایک سوشل ماحول تھا۔ کئی عوامل پہ جو آج پابندیاں ہیں تب نہ تھیں۔ تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ یا تو آج کے حکمران یہ دعویٰ کریں کہ اُن کی سوچ قائد اعظم کی سوچ سے برتر ہے۔ قائد اعظم کا زمانہ، لیاقت علی خان کا دور، ایوب خان کا دس سالہ اقتدار، ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی ایک طرف اور اُس کے بعد یہ موجودہ مجبوریوں کے ادوار۔ ان مجبوریوں کے نفاذ سے ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟ کیا ہم بہتر مسلمان ہو گئے ہیں؟ کیا پاکستان بہتر شکل میں نمودار ہوا ہے؟ کشکول لیے پھر رہے ہیں، کبھی ایک دروازے پہ دستک کبھی دوسرے پہ۔ ڈرائیونگ والا ایک نیا شوشہ ہم نے ایجاد کر ڈالا ہے۔ عزت و تکریم کا حقدار کوئی مہمان باہر سے آئے تو وزیر اعظم ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیتے ہیں۔ ڈرائیونگ کی یہ ہنر مندی اب ہماری سفارت کاری کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

روزانہ کی بنیاد پہ ایسے گونج دار اعلانات آتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے‘ کسی میدانِ پانی پت میں یہ اعلان ہوئے۔ پتا چلتا ہے کہ پھر سے کوئی میٹنگ ہوئی ہے جہاں کرپشن ختم کرنے یا مہنگائی پہ قابو پانے کا اعلان فرمایا گیا ہے۔ ایسے اعلانات سنتے ہوئے کان پک چکے ہیں۔ حضور، ہم تو بے بس ہیں۔ پہلے بھی بہت برداشت کیا ہے مزید برداشت کرتے جائیں گے۔ معاشی حالات خراب ہیں تو یہ بھی مجبوری سہی لیکن گھٹن کے ماحول میں کچھ کمی نہیں آ سکتی؟ کسان کے حالات خراب ہوں تو حقے کا کش لگا لیتا ہے۔ ہم کس حقے کا کش لگائیں؟ ہمارے دلوں کو ٹٹولیں تو پھر معلوم ہو کہ کن مشکلات میں پہلے سے زخم شدہ دل گھرے ہوئے ہیں۔

بیان نہیں کیا جا سکتا کیا مشکلات ہیں، قیمتیں کہاں تک پہنچ چکی ہیں، سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے کیا مسائل ہیں۔ اس کے لئے آپ کو کچھ کرنا تو نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا، کسی اور سے امداد نہیں مانگنی۔ بھلا ہو جنرل ضیاء الحق کا، اپنی سرکاری رہائش گاہ کے پڑوس میں جو کارخانہ چلتا ہے اُسے بند نہیں کیا۔ بنکاک کو چھوڑئیے، اِس کا تو ذکر ہی شجر ممنوعہ بنتا جا رہا ہے۔ دوبئی سے کچھ سیکھ لیں۔ ترکی سے دوستی کے ترانے گاتے ہیں۔ کچھ ترکی سے ہی سیکھ لیں۔ دیکھ لیں وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ وہ مسلمان ملک نہیں؟ اسلام پہ وہاں کوئی پابندی ہے؟ پھر یہاں پہ کیا تماشے بنا رکھے ہیں؟ بات ہمت کی ہے۔ بے ہمتوں میں ہمت کہاں سے آئے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے