حمد ِ خداوند تعالیٰ

آج آپ کی خدمت میں مشہور عالم ِ دین شیخ سعدیؒ نے اللہ تعالیٰ کی حمد، جو بوستان میں بیان کی ہے، وہ پیش کررہا ہوں۔ شیخ سعدی کی پیدائش شیراز میں 13ویں صدی عیسوی کے شروع میں ہوئی تھی اور وفات بھی وہیں آخری دہائی میں ہوئی۔ یہ منظوم کتاب ہے جس کا ترجمہ جناب ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے کیا ہے۔

(یہ اشعار خدا تعالیٰ کی حمد میں ہیں، جن میں خدا کی مختلف صفات کو کہیں واضح طور پر اور کہیں استعاروں میں بیان کیا گیا ہے)

اس خدائے بزرگ و برتر کے نام پر (شروع کرتا ہوں) جو جان/ روح کی تخلیق کرنے والا اور ایسا حکیم/ دانا جس نے زبان میں قوتِ گویائی (بولنے کی قوت) پیدا کی۔ وہ ایسا مولا و آقا ہے جو بخشش فرمانے اور دست گیری کرنے والا، گناہ معاف کرنے اور توبہ قبول فرمانے والا ہے۔وہ ایک ایسا عزیز ہے کہ جس کسی نے اس کے در سے سر موڑ لیا (اس کی طرف توجہ نہ کی) وہ پھر جہاں کہیں بھی گیا اسے کوئی عزت نہ ملی۔ گردنیں بلند کرنے والا یا بلند مرتبہ بادشاہ بھی اس کے حضور عاجزی سے سر جھکاتے ہیں۔وہ(کریم) ایسا ہے کہ نہ تو سر کشوں ؍گنہگاروں کی فوری گرفت کرتا ہے اور نہ معذرت کرنے (معافی مانگنے) والوں کو سختی سے دھتکار دیتا ہے (اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے)۔ اور اگر وہ (ذاتِ رحیم) تیری بدکرداری پر ناراض بھی ہو جائے تو جب تو لوٹ آئے یعنی اچھا کردار اپنا لے تو وہ بات یا ناراضی ختم فرمادیتا ہے۔

(اس کے برعکس) اگر کوئی (بیٹا) اپنے باپ سے الجھتا ہے تو باپ ضروری طور پر بےحد غصے میں آجاتا ہے۔ اور اگر کوئی اپنا (رشتہ دار، عزیز وغیرہ) اپنے کسی عزیز سے راضی نہیں ہوتا تو اسے وہ غیروں کی طرح اپنے سے دور کردیتا یا بھگا دیتا ہے (اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا)۔ اور اگر کوئی بندہ کام یا معاملوں میں ہوشیار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے عزیز نہیں رکھتا۔ اور اگر تو اپنے ساتھیوں، دوستوں کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش نہ آئے تو تیرے اس روّیے پر وہ تیرا ساتھی تجھ سے بہت دور بھاگ جائے گا۔ اور اگر کوئی سپاہی؍ فوجی خدمت چھوڑ دیتا ہے تو دھاوا بولنے یا لشکر کشی کرنے والا بادشاہ اس سے بری ہو جاتا ہے۔ جبکہ وہ (کریم) جو بالا و پست (تمام کائنات) کا مالک ہے کسی پر ’اس کے گناہوں کے باوجود‘ رزق کا دروازہ بند نہیں کرتا۔یک قطرہ ہیں، وہ انسانوں کے گناہ دیکھتا ہے تو اس پر اپنے حلم (نرم دلی) سے پردہ پوشی کردیتا ہے۔ یہ روئے زمین اس (ذات) کا ایک عام دسترخوان ہے۔ اس وسیع دستر خوان پر کیا دشمن اور کیا دوست سب ہی بیٹھتے ہیں (یعنی وہ ہر کسی کو روزی عطا کرتا ہے)۔ اگر تو نے جفا پیشہ (دوسرے انسانوں پر ظلم و سختی کرنا) اختیار کرنے میں جلدی کی تو پھر تو اس کے قہر سے کیونکر بچے گا (نہیں بچ سکے گا)۔

اس کی ذات ضد اور جنس (شریک) سے پاک ہے (اس کا کوئی مخالف اور شریک نہیں ہے) اس کا ملک یا سلطنت جن و انس سے اطاعت و عبادت سے بےنیاز ہے۔ ہر چیز اور ہر انسان اس کا حکم ماننے والا ہے۔ بنی آدم، پرندے، چیونٹی اور مکھی (اس کا بندہ اور اس کی مخلوق ہے)۔ اس نے کرم کا دستر خوان کچھ اس قدر وسیع بچھا رکھا ہے کہ قاف میں سیمرغ اپنے مقدر کی روزی کھاتا ہے۔ وہ کرم پھیلانے والا (بڑا کریم) اور کارساز ہے، جو حاملِ خلق اور دانائے راز ہے (اس سے دنیا کی کوئی بات یا چیز چھپی ہوئی نہیں ہے)۔سب عظمت و کبریائی اسی کے لائق ہے، اس لیے کہ اس کا ملک (کائنات) قدیم ہے اور اس کی ذات بےنیاز۔ وہ کسی کے سر پر تو بخت؍ خوش بختی کا تاج رکھتا ہے اور کسی کو تخت سے نیچے خاک میں لے آتا ہے۔

کسی کے سر پر تو سعادت کی کلاہ ہے اور کسی کے جسم پر شقاوت کی کملی ہے۔ (وہ جسے چاہے خوش بخت بنادے اور جسے چاہے سنگدل)۔وہ (مولا کریم)(اپنے دوست) حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ پر آگ کو گلستان بنا دیتا ہے (قرآنی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، نمرود نے حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالا تھا لیکن وہ آگ باغ میں تبدیل ہوگئی) اور ایک گروہ کو دریائے نیل کے پانی سے آگ میں ڈال دیتا ہے (حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا واقعہ، فرعون نے حضرت موسیٰ ؑکا تعاقب کیا، وہ تو اپنے ساتھیوں سمیت دریا سے پار نکل گئے لیکن فرعون اور اس کی فوج دریا میں غرق ہوگئی)۔اگر (آگ کو باغ میں بدلنا) اس کا منشور ہے تو اس کا احسان ہے اور اگر یہ (فرعون کا غرق ہونا) ہے تو یہ اس کے فرمان کی وقعت ہے۔ وہ (کریم) انسانوں کے برے اعمال کو پردے کے پیچھے سے دیکھتا ہے اور اپنی نعمتوں سے وہی پردہ پہن لیتا ہے۔اگر وہ سرزنش کے طور پر حکم کی تلوار کھینچ لے تو مقرب فرشتے بھی صم’‘ بکم’‘ ہوکر رہ جائیں۔ اور اگر وہ کرم و بخشش کی ایک دعوت دے یا کرم کرنا چاہے تو ابلیس بھی کہہ اٹھے کہ مجھے بھی کچھ ملے۔ اس کی مہربانی و نوازش اور عظمت کے حضور بڑے بڑے انسان اپنی بزرگی ؍ عظمت سر سے نکال دیتے ہیں (اس کے حضور سراسر عاجز ہوتے ہیں)۔

فروماندہ (عاجز و ناچار) انسانوں کے ساتھ وہ بڑی رحمت فرماتا ہے جبکہ اپنے حضور گڑگڑانے؍ گریہ و زاری کرنے والوں کی پکار دعا کو قبول فرماتا ہے۔ ایسے حالات کو جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے،اس کا علم بڑا بصیر (دیکھنے والا) اور اَن کہے رازوں سے اس کا کرم بڑا باخبر ہوتا ہے (وہ علّام الغیوب ہے)۔ وہ اپنی قدرت سے پست و بالا (تمام کائنات) کا نگہبان ہے اور روزِ حساب؍ قیامت کی عدالت کا سربراہ ہے۔ نہ تو اس کی طاعت و عبادت سے کسی کی پشت بےنیاز و بےپروا ہے اور نہ اس کی بات پر کسی کی انگلی اٹھتی ہے (کوئی اعتراض نہیں کرسکتا)۔ وہ ایسی ذاتِ قدیم ہے جو اچھے کام کرنے اور نیکیوں کو پسند کرنے والی ہے۔ اپنی قضا و قدر کے قلم سے رحم (رحم ِ مادر) میں نقش بنانے والی ہے (ماں کے پیٹ میں بچہ کی تخلیق کرتا ہے)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے