ہمارے وزیراعظم بہت اچھے ہیں

آپ کو بتانا تھا کہ درویش نے عمران خان صاحب کے بارے میں اپنی رائے بدل لی ہے۔ خدا وزیراعظم کی حفاظت فرمائے اور ان کی حکومت کو دوام بخشے۔ فطری کاہلی آڑے آئی ورنہ اصولی طور پر تو تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی اطاعت کا اعلان واجب تھا کہ یہی ہماری روایت ہے اور بزرگوں کا بتایا ہوا اصول بھی۔ دیر آید درست آید۔ وزیراعظم نے اسلام آباد اور لاہور میں اوپر تلے جو بصیرت افروز خطبات ارزاں فرمائے، ان سے مجھ کم فہم پر اپنی کوتاہ نظری عیاں ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انکے مخالفین کم عقل اور جرائم پیشہ افراد کا ایک گروہ ہیں جو اپنے مفادات کیلئے وزیراعظم کی خدا داد قیادت سے دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔

پچھلے دنوں برادر عزیز یاسر پیرزادہ کتاب میلے سے المانوی فلسفی فریڈرک نطشے کی کتاب خرید لائے، ’اور زرتشت نے کہا‘۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ جوانی آنجہانی کے دنوں میں یہ کتاب نظر سے گزری تھی۔ حافظے کی جوت اب ٹمٹمانے لگی ہے۔ ایک جملہ البتہ یاد رہ گیا ہے۔ The higher we soar the smaller we appear to those who cannot fly. (ہم جتنا عظیم ہوتے جاتے ہیں، زمیں پر رینگنے والی مخلوق ہماری عظمت پہچاننے سے قاصر ہوتی چلی جاتی ہے)۔ دیکھئے ہمارے محترم وزیراعظم نے یہی بات کس خوش اسلوبی سے کہی کہ ’کسی کو اندازہ نہیں پاکستان کتنا عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، مہینوں اور برسوں میں یہ ملک تبدیل ہو گا، لوگ دوسرے ممالک سے نوکریاں ڈھونڈنے یہاں آئیں گے‘۔ عوام کالانعام اڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا یہ عظمت فی الحال ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔ بدقسمتی سے بیرونی سرمایہ کار اور سیاح بھی مقامی باشندوں ہی کی طرح ہمارے وزیراعظم جیسی بلندی نظر سے محروم واقع ہوئے ہیں۔ دیکھیے وزیراعظم نے کس بلاغت سے اپنے بیان میں ’مہینوں اور برسوں‘ کی ترکیب بٹھائی ہے۔

کس برس کے مہینے؟ یہ وضاحت اپنے مداحوں کیلئے چھوڑ دی۔وزیراعظم عمران خان نے فرمایا کہ ’میں نے کبھی نہیں کہا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائوں گا، میں نے پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا وعدہ کیا تھا‘۔ گزشتہ 18مہینوں میں وزیراعظم نے چین میں کرپشن سے نمٹنے کے طریقوں کی تحسین کی۔ ترکی کی جمہوری ساکھ کی تعریف کی۔ سعودی عرب میں صحافت کی آزادی پر داد دی۔ ملائیشیا کی قیادت کو سراہا۔ پاکستان کی بےآب و گیاہ دھرتی اتنے متنوع نمونوں کی برداشت نہیں رکھتی جب کہ ہم پاکستان میں یکے بعد دیگرے کنٹرولڈ جمہوریت، بنیادی جمہوریت، عوامی سوشل ازم، نظامِ مصطفیٰ، تزویراتی گہرائی اور معتدل روشن خیالی جیسے میووں کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیں بانیٔ پاکستان کا وہ سادہ وطن لوٹا دیا جائے جس میں ہم خاک نشین جمہوری بندوبست کے سائے میں قانون کی بالادستی، علم کے فروغ اور معاشی ترقی سے بہرہ مند ہو سکیں۔ وزیراعظم سے دست بستہ درخواست ہے کہ ہر غیرملکی مہمان کو پاکستان میں بےپناہ مقبولیت اور انتخاب جیتنے کا سندیسہ نہ سنایا کریں۔ یہ لوگ اپنے ملک ہی میں انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انتخاب جیتنے کے لئے انہیں وزیراعظم کی جماعت میں شامل ہونا پڑے گا۔ اور ایک التماس یہ کہ جمہوری عمل میں بلاخوف و ہراس شمولیت پر ایسی ہی یقین دہانی گاہے گاہے اپنے ملک کے بدنصیب لوگوں کو بھی کروا دیا کریں۔ کوئے جاناں کے بھی اک مدت سے ہیں آہٹ پہ کان…

وزیراعظم فرماتے ہیں کہ آج سبز پاسپورٹ کی عزت پہلے سے زیادہ ہے۔ اس فرمانِ شاہ کی حقیقت بھی کم نظر زمینی مخلوق سے اوجھل ہے۔ گزشتہ ماہ 107ممالک کے پاسپورٹ کی درجہ بندی میں پاکستان کو 104درجے پر رکھا گیا۔ ہم سے نیچے صرف عراق، افغانستان اور شام کو جگہ مل سکی۔ پاسپورٹ کی عزت معلوم کرنے کا ایک زیادہ آسان نسخہ بھی موجود ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اہلِ دنیا کس ملک میں داخل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں یا اسے چھوڑ کے بھاگنا چاہتے ہیں۔ سادہ لوح عوام تو صرف یہ جانتے ہیں کہ پچھلے 20برس میں ہماری قسمت سنوارنے کا از خود ذمہ اٹھانے والی متعدد برگزیدہ ہستیاں اب بیرون ملک بیٹھی ہیں اور ان کے واپس لوٹنے کا امکان بھی نہیں۔ ن م راشد کی نظم ’ابوالہب کی شادی‘ تو ہم میں سے بہت سوں نے پڑھ رکھی ہو گی۔

ہمارے وزیراعظم کو گلہ ہے کہ ’منصوبہ بندی کے تحت کچھ چینلز حکومت کیخلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ عام آدمی سے مہنگائی کے بارے میں پوچھتے ہیں اور عام شہری برا بھلا کہتا ہے‘۔ ہم وزیراعظم کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اُن کی بابرکت حکومت میں ذرائع ابلاغ جیسی سماجی برائی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ بیشتر صحافتی ادارے اس حقیقت کو سمجھ کر بوریا بستر سمیٹ رہے ہیں۔ صحافیوں کے قلم خشک ہو رہے ہیں اور گلے بیٹھ گئے ہیں۔ ویسے بھی کون نہیں جانتا کہ ملک میں مہنگائی نہیں ہے۔ کچھ مفسدہ پرداز سیاست دانوں نے آٹا اور چینی مہنگا کرنے کی سازش کی تھی۔ الحمدللہ، حکومت اس ضمن میں تحقیقات کر رہی ہے۔ وزیراعظم اس سازش کے کسی ذمہ دار کو نہیں چھوڑیں گے، جزاک اللہ۔ اتنی معمولی سی بات جاننے کے لئے اس ملک کے لوگوں کو صحافت وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔

وزیراعظم نے فصاحتِ کلام کا کمال وہاں دکھایا جہاں انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ ’دن رات محنت کر رہا ہوں، دنیا کے دیگر وزرائے اعظم سے میری تنخواہ کم ہے، میرا صرف سیکورٹی اور آنے جانے کا خرچہ ہے۔ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں۔ اپنے بل خود ادا کرتا ہوں۔ میرا کوئی کیمپ آفس نہیں۔ میں چھٹیاں بھی نہیں کرتا۔ میں کرپٹ نہیں اس لئے فوج سے نہیں ڈرتا‘۔ سچ تو یہ ہے کہ قائدِ محترم نے قدرے انکسار سے کام لیا۔ وہ یہ اضافہ بھی کر سکتے تھے کہ میں سونے سے پہلے دانت صاف کرتا ہوں نیز باقاعدگی سے صبح کی سیر کرتا ہوں۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ میں اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ مرحوم خالد حسن نے اس پر گرہ لگائی تھی کہ ’مجھے وزیراعظم بنا دیا جائے تو میں سوا اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے لئے تیار ہوں‘۔ وزیراعظم عمران خان خاطر جمع رکھیں۔ ان کی عظمت اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے