بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی اور دعوہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک سیمینار

ہوٹل ہِل ویو اسلام آباد میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی اور دعوہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک سیمینار جس کا موضوع (اسلام اور بین الاقوامی قانونِ انسانیت) تھا میں آج تربیت ائمہ کورس نمبر 100 کے شرکاء کے ہمراہ شرکت کا موقع ملا ۔ دعوہ اکیڈمی شرکاء کے وفد کی قیادت کورس کوآرڈینیٹر جناب ڈاکٹرحافظ احمد حماد صاحب نے کی ۔ ریڈ کراس کمیٹی پاکستان کے فوکل پرسن جناب ڈاکٹر ضیاءاللہ رحمانی صاحب نے شرکاء کورس کو ویلکم کیا ۔

ابتدائی تعارف میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آئی سی آر سی دراصل دو فریقوں کی لڑائی کے نتیجے میں زخمیوں کی مدد کے لئے بنائی گئی تھی شروع شروع میں اس کا مقصد جنگ میں زخمی ہونے والے سپاہیوں کی دیکھ بھال اور جنگی قیدیوں کی امداد اور خبر گیری کرنا تھا بعد میں مقاصد میں وسعت کی گئی اور زمانہ امن میں بھی اسے عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا گیا ۔ ۔

آپ نے مزید بتایا کہ ریڈ کراس کمیٹی کا قیام 1863 میں سوئزرلینڈ میں عمل میں آیا۔ چوں کہ ریڈ کراس سوسائٹی کی ابتدا سوئٹزر لینڈ سے ہوئی اس لیے اس کے جھنڈے کا رنگ بدل کر سوسائٹی نے اسے اپنا نشان بنا لیا۔ سوئٹزرلینڈ کے جھنڈے میں سرخ زمین پر سفید صلیب ہے۔ ریڈ کراس کا علامتی نشان سفید زمین پر سرخ صلیب ہے۔ اس مناسبت سے اسے صلیب احمر یا ریڈ کراس کہا جانے لگا۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ریڈ کراس کے مقاصد میں اس قدر شفافیت اور غیر جانب داری تھی کہ اسی کا اعتراف کرتے ہوئے 1866 میں اس وقت کی خلافت عثمانیہ بھی اس میں شامل ہو گئی اور اس کا ساتھ دیا۔ لیکن بعد میں جب روس کے خلاف خلافت عثمانیہ کی لڑائیاں بڑھ گئیں تو روسی فوجی صلیب لے کر لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آتے تھے خلافت عثمانیہ کی فوجوں نے جب دیکھا تو ریڈ کراس کو صلیب کی مشابہت قرار دے ریڈ کراس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ خلافت عثمانیہ کی مشاورت سے غالبا ترکی کے جھنڈے سے ہلال لے کر سرخ ہلال بنا دیا گیا اور کہا گیا کہ جہاں مسلمانوں کو مسئلہ ہو وہ ریڈ کراس کی جگہ ہلال کا نشان استعمال کر لیں اس کے بعد سے ہلال احمر وجود میں آئی یہ بھی ریڈکراس ہی ہے۔ اسی مناسبت سے اسے بین الاقوامی صلیب احمر و ہلال احمر کہا جانے لگا ۔

ڈاکٹر ضیا اللہ رحمانی نے ایک تصویری ڈاکومنٹری بھی چلائی جس میں بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کی خدمات، دائراہ کار اور کارکردگی کے متعلق معلومات تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بین الاقوامی قانون کا بنیادی ڈھانچہ،بین الاقوامی قانونِ عام کے مآخذ،بین الاقوامی قانونِ عام برائے جنگ کے دو پہلو،قانونِ انسانیت اور حقوقِ انسانی کے قانون کا تعلق،آداب القتال کے چار قواعد عامہِ،آداب القتال کے قانون کے دوپہلو، قانونِ جنیوا کے اہم معاہدات،مسلح تصادم کی اقسام،مقاتل کی حیثیت،مقاتل کی حیثیت کے لیے چار شرائط،عوامی مزاحمت اور مقاتل کی حیثیت،،غیر مقاتلین کو نشانہ بنانے کی ممانعت اور دیگر موضوعات پر مفصل گفتگو کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی سی آر سی نہ صرف جنگ کے بعد کے حالات میں کام کرتی ہے بلکہ اس کا کام جنگ سے پہلے جنگی جنون رکھنے والے ملکوں کو جنگی قوانین سے آگاہ کرنا بھی ہوتا ہے جنگ کیوں کیسے ہو گی اس کے لئے باقاعدہ قوانین وضع ہیں جن کے بارے میں آگاہی کا فریضہ انجام دینا آئی سی آر سی کا بنیادی کام ہے ۔

یہ ایک انتہائی معلوماتی اور دعوتی و علمی دورہ تھا جس سے شرکاء کورس دعوہ اکیڈمی نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آئی سی آر سی کے کام کو نہ صرف سراہا بلکہ ان کے جذبے اور لگن کو سلام بھی پیش کیا ۔

” ڈاکٹر ضیاءاللہ رحمانی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ بقول ڈاکٹر صاحب انہوں نے ملازمت کا آغازدعوہ اکیڈمی سے ہی کیا اور تربیت ائمہ کورس میں ریسورس پرسن کے طور پر لیکچرز بھی دیتے رہے ہیں ۔ مہمانوں کے لئے ہائی ٹی اور پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مہمان شرکاء نے خوب مزے لے لے کر کھانا کھایا اور دعا کی کہ اللہ اس ادارے پر ڈاکٹر صاحب کا سایا قائم و دائم رکھے تاکہ علمی و شکمی تشنگی کی پیاس اسی طرح بھجتی رہے”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے