داعش کی پیدائش ؟

عراق کی ابوغُریب جیل کا شمار دنیا کی بدترین جیلوں میں ہوتا ہے۔صدام حسین کے دور میں یہ جیل سیاسی مخالفین کے لئے مخصوص تھی،یہاں اُنہیں عبرتناک سزائیں دی جاتی تھیں۔یہ مصر کی جیل وراء الشمس کی طرح تھی،جس کا مطلب ہے سورج کے اُس پار، جو لوگ ان جیلوں میں ڈالے جاتے تھے وہ شاذ ہی واپس آتے تھے۔ 2003 کے بعد امریکی افواج نے عراقی شہریوں کے ساتھ اسی جیل میں شرمناک اور گھناؤنا سلوک روا رکھا جسے سن کر پوری دنیا کے انسانی حقوق کے ادارے تلملا اٹھے۔ بعد میں امریکی صدر بش کو علی الاعلان دنیا سے معافی مانگنی پڑی۔

امریکی انخلاء کے بعد ایران نواز عراقی حکومت نے بھی جیل کی روایت کو بدلنا اُن شیعہ نوجوانوں کے خون سے دغا کے مترادف سمجھا جو صدام حسین کے عہد میں یہاں اذیت دئے گئے۔اس جیل میں مشکوک سنی اشخاص کو قید کیا جاتا ہے۔اس کی مضبوط و بلندقامت دیواریں اور اندر کا سناٹا روح کو بوجھل کرنے کے لئے کافی ہے۔ہر لمحے اس کے زندان خانوں میں خوف اور اذیت کی کئی داستانیں دفن ہوتی ہیں۔ 21 جولائی 2013 کو ابوغریب جیل میں ایک واقعہ پیش آیا۔باہر سے کچھ حملہ آور آئے۔ انہوں نے جیل پر شدید دھاوا بول دیا اور اسکے اندربند اپنے سات سو ساتھیوں کو نکال کر فرار ہوگئے۔جیلوں پر حملے ہونا اور قیدیوں کا فرار ہوجانا عجیب اور غیرمعقول بات نہیں ہے،لیکن ابوغریب جیسی جیل سے سات سو افراد کا کامیابی کے ساتھ نکل جانا ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔لیکن یہ حیرت اس وقت اس وقت ختم ہوگئی جب ہسپتال میں پڑے کچھ سپاہیوں نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے۔

ان کا کہنا تھا اس طرح کی کاروائی دنیا کی کوئی بھی دہشت گرد تنظیم انجام نہیں دے سکتی۔جو کچھ بھی ہوا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرایاگیا۔اس میں ضرور حکومت کی معاونت شامل ہے۔ہم جب بھی اس رات کے حادثے بارے سوچتے ہیں ہمارا سر پھٹنے لگتا ہے۔ بعدمیں کئی شواہد سامنے آئے جن سے حکومت کا ملوث ہونا ثابت ہوتا ہے۔

حملہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا۔حملے سے چند دن قبل جیل کے سپرنٹینڈینٹ نے نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ تمام قیدیوں کے لئے اجتماعی افطاری کا بندوبست کیاجائے۔اسکے لئے اس نے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کی۔اس دوران القاعدہ کے 200 کارکن بغداد کی ناصریہ جیل سے ابوغریب منتقل کردئیے گئے۔یہ سارے کے سارے وہ لوگ تھے جنہیں پھانسی کی سزا سنائی جاچکی تھی۔انکا ابوغریب لایا جانا خلافِ اصول تھا۔اسکے علاوہ جیل کی اندرونی جانب دیواروں کے ساتھ کئی جگہ پتھروں کے ڈھیر جمع کردئیے گئے،جن سے دیوار پر باآسانی سے چڑھا جاسکتا تھا۔ 21جولائی کو مغرب کے قریب تمام قیدیوں کو افطاری کے لئے ایک جگہ جمع کردیا گیا۔انمیں وہ قیدی بھی شامل تھے جنہیں الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا ہے۔انکا کسی اور سے ملاقات کرنا ممنوع تھا،مگر جیل کے سربراہ کے حکم کے مطابق سب کو ایک جگہ اکٹھا کردیاگیا۔وہ سب آپس میں بات چیت کررہے تھے۔

جیل کا انتظامی عملہ حیران تھا کہ جنکے چہرے مرجھائے ہوئے تھے اب ان پر خوشی کی لہر تھی۔افطاری کے بعد انہیں واپس زنذانوں میں بند کردیا گیا۔عشاء کی نماز کے بعد جونہی گھڑی نے نو بجائے جیل کی فضاء رکٹ حملوں کے شور سے گونج اٹھی۔جیل کے اطراف میں برجوں پر متعین سپاہیوں نے آواز لگائی کہ جیل سے تھوڑی دور کچھ مسلح افراد ہیں جو راکٹ فائر کررہے ہیں۔وہ شاید اندر گھسنا چاہتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی خبر دی کہ جیل کے باہر پولیس کی گشتی گاڑیاں بھی موجود نہیں ہیں۔انتظامی عملے نے فورا مرکزی سیکیورٹی ہیڈکوارٹر کو کال کرکے حادثے کی خبر دی۔جواب ملا ٹھیک ہے،کمک بھیجی جارہی ہے۔ باہرسے راکٹ اور گولیاں بارش کی طرح مسلسل برس رہے تھے۔ مقابلہ کرنا پولیس کے بس میں نہیں تھا۔زیادہ تر اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔اس دوران جیل کی بجلی بھی منقطع ہوگئی۔

دو گھنٹوں تک کوئی مدد نہیں پہنچی۔حملہ آور جیل کے اندر داخل ہوچکے تھے۔دو گھنٹے گزرنے کے بعد جیل کی دھویں سے اَٹی فضا میں ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے جن سے آرمی کے نوجوان اتر رہے تھے۔اسکے بعد مزید دو گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔جب دھواں چھٹا تو معلوم ہوا القاعدہ کے سات سو اہم ترین افراد کامیابی سے فرار ہوچکے ہیں۔

اس واقعے کے صرف چند ہی دن بعد خبر آئی کہ شام میں ایک تنظیم وجود میں آئی ہے،جسکا نام داعش ہے۔اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ملی کہ بشارالاسد کے خلاف لڑنے والی تنظیم جبہۃ النصرۃ کے فتح کردہ دوشہروں پر داعش نے قبضہ کرلیا ہے اور مقابلے میں جبہۃ النصرۃ کے کئی مجاہد شہید ہوگئے ہیں۔ جبکہ حکومتِ عراق کی وزارت داخلہ نے فرارہونے والے قضیے کی پیش رفت کی بابت جوابدیا کہ انہیں واپس گرفتار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ عراق سے شام میں داخل ہوچکے ہیں۔ ادھر کچھ دنوں بعد بشارالاسد نے ایک مغربی صحافی کو انٹرویو دیا جس میں وہ خلافِ معمول پہلی بار خوداعتماد اور مطمئن نظر آرہا تھا،جیسے اس کی تمام مشکلات دور ہوچکی ہیں۔

جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے