خدارا یہ ہماری اصل بحثیں نہیں ہیں

بطور صحافت کے طالب علم مجھے جتنا سمجھ آتا ہے وہ یہ کہ میڈیا کا کام معاملات میں بگاڑ کی بجائے دانشوروں ایکپسرٹس اور تجزیہ نگاروں کی ماہرانہ رائے کی روشنی میں حل تلاشنا ہے نہ کہ ٹاک شوز کو تھڑے بازی اور ٹھٹھے بازی کا میدان بنانا . میڈیا کے حالات پتلے ہیں سب خبر رکھنے والے جانتے ہیں اس میڈیا کا قبلہ درست ہونا ضروری ہے میں بھی مانتا ہوں کیونکہ میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ آئیندہ آنے والے پندرہ بیس سالوں میں میڈیا کے پاس کانٹینٹ کیا ہے جسے معیاری اور علم و حکمت یا دانشوری سے بھرپور کہا جا سکے؟؟

یا میڈیا نوجوان نسل کی راہ متعین کرنے کے لئے کیسے کردار ادا کر رہا ہے؟؟ ٹاک شوز اور ٹی وی چینلز تاحال تفریح اور بے مقصد مباحثوں سے لبریز ہیں جسکا عملی نمونہ سوشل میڈیا پہ ہونے والی بحث ہے

ایک لکھاری اور خواتین کے حق میں بات کرنے والی خاتون کی ایک۔شو میں آپس میں تکرار نے پوری جنتا کو ایک ہی ٹرک کی بتی پیچھے لگا دیا اس سے دو چیزیں سامنے آئی ہیں ایک یہ کہ ہم ویلے لوگ ہیں دوسرا یہ کہ ہمارے پاس معیاری الفاظ ، سوچ ، فکر اور عمل کا فقدان بلکہ شدید قلت ہے

اب بات کرتے ہیں بڑے اینکرز کی صحافت کو یرغمال بنا رکھا ہے ریٹنگ کی دوڑ نے عورت مارچ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسلہ بنا رکھا ہے، میرے خیال سے غربت اور بے روزگاری اصل مسلہ ہے میری سوچ ناقص ہے اور پڑھنے والے اختلاف بھی کر سکتے ہیں

کچھ سوال ہیں کیا بد زبانی اور چیخ کر بولنا دانشوری اور مہذب ہونے کا معیار ہے؟؟؟ اینکرز کے پاس سوشل میڈیا سے ہٹ کر شوز کے کئے کوئی ٹاپک نہیں بچا

اگر سوشل میڈیا کو فالو کر کے ہی آپ نے عوامی سوچ کو نیا راستہ دینا ہے تو ٹی وی چینلز کو تالے لگا دیں ویسے بھی تو آپ ورکرز کو معاشی طور پہ مار ہی رہے ہیں نا

عورت مارچ ذہنوں پہ سوار کر کے آپ خود کو محدود کر رہے ہیں اگر خواتین ایک دن اپنے حقوق کے لئے نکل رہی ہیں تو آپکو کیا مسلہ ہے ؟؟؟؟

اور خواتین سے بھی درخواست ہے کہ جائز حقوق کے لئے آواز بلند کریں معاشرہ آپکے ساتھ ہے جب آپ اوٹ پٹانگ سلوگنز کے ساتھ چوراہوں میں نکلیں گی تو منفی نظریں تو تعاقب میں نکلیں گی ہی اور اس مارچ کا مقصد بھی اسی چوراہے میں دفن ہو جائے گا

اب آجائیں ملکی حالات پہ غربت ، حکومتی پالیسیاں ، بے روزگاری ں تعلیمی اور صحت کا نظام کرونا وائرس کے تناظر میں اس سب پہ بحث کون کرے گا ؟؟؟؟ کون بتائے گا کہ بھئی جب ٹریفک سگنل کا اشارہ لال ہو تو اس پہ گاڑی کو گئیر میں ڈال کے اڑانا جرم ہے یا سڑک پہ کوڑا پھیلانا بد تہذیبی اور جرم ہے

کچرے کو چھوڑیں سب سے پہلے دل و دماغ اور نظروں میں جو کچرا ہے اسے کون صاف کرے گا؟؟ مطلب سڑک پہ جاتی لڑکی کے ڈیل ڈول کا ایکسرا کرنا کہاں کی تہذیب ہے پھر آوازیں کسنا اور اسی طرح کے کچھ اور عوامل سے عورتیں مارچ پہ مجبور ہوتی ہیں تو آپکو دین دنیا آخرت اور جہنم جنت سب یاد آجاتا ہے

اب دوسری جانب خواتین کے شدت پسند نعروں سے تنگ آکر اگر کل کو مرد بھی مرد مارچ کے لئے نکلیں گے تب بھی بھی آپ اس مارچ پہ ٹاک شوز میں مداری سجا لیں گے؟؟؟؟؟

اجتماعی رویوں اور سوچ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے شاید ہمیں یا کہ ہم سب بھیڑ چال کا شکار رہیں گے سوشل میڈیا پہ لاہور قلندر ز کی جیت ، کرونا وائرس پہ سینکڑوں لطیفے بنانے کے بعد ہمیں اب یہ نیا کھیل مل گیا جسے قریب قریب سب کھیل رہے ہیں
ہم کب تک کوہلو کے بیل کی طرح اپنے ہی بنائے مدار میں گول گول گھومتے رہیں گے
آخر کب تک؟؟؟
معاشرتی ذمہ داریوں اور اخلاقیات پہ بات کون کرے گا؟ ہجوم سے ایک قوم ہم کب بنیں گے؟؟؟؟
شاید کبھی نہیں یا شاید ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے
شاعر رحمان فارس کا ایک شعر پورے معاشرتی روئیے کی نذر

دیارِ حرف و صدا اب وہ شہر ہے کہ جہاں
سخن تراش بہت سے ہیں، فیض کوئی نہیں

اور اس ہجوم کی بونی سوچ پہ ترس آتا ہے کہ خلیل الرحمن قمر کی سوچ سے متفق لوگ ماروی سرمد کی تصاویر کے ساتھ ٹھٹھے اڑا رہے ہیں اور ماروی سرمد کے حق میں جو لوگ ہیں وہ خلیل الرحمن قمر پر آوازیں کس رہے ہیں بھئی اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو کیا مرد اور خواتین جو ہم اس معاشرے کا حصہ ہے دونوں اصناف کو آپس میں انکے حقوق دے پا رہے ہیں ہم؟؟؟ یا صرف خالی مغز ماری اور ایک ایشو پر لچ فرائی کر رہے ہیں
خدارا ہجوم سے نکلئیے اور قوم بننے میں کردار ادا کیجئیے
یہ میں خود سے کہہ رہا ہوں

کیونکہ میں ایک چھوٹے سے شہر میں چند گز کے مکان میں بیٹھا اپنے معاشرے کے جنازے پہ نوحہ کناں ہوں بچی کچھی کسر ہمارا میڈیا پوری کر رہا ہے . میڈیا میں اس وقت معاشرے کی راہ جو کہ فکری بنیادوں پہ ہونی چاہئیے متعین کرنے کا شدید فقدان ہے وگرنہ اس بحث و تکرار کے بعد دوسرے اینکرز مداریاں نہ سجاتے . اس سے زیادہ لکھنا تحریر کی طوالت اور میرے قارئین جو کہ چند ایک ہیں کی طبعیت پہ وزن ہو گا اسلئیے میں اپنا گریبان جھانکتا ہوں آپ بھی ٹٹولئیے کہ آخر وجہ کیا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے