میری این جی او ، میری مرضی

میرا جسم، میری مرضی
My body, my choice

اس نعرے کا پس منظر

امریکہ میں اسقاط حمل یعنی حمل گرانے کے حق میں اور خلاف پرزور تحریکیں چلتی رہی ہیں اور اسقاط حمل کئی ریاستوں میں جرم ہے اور اس پر پابندی ہے۔
ان پابندیوں کے خلاف اور حمل گرانے کے حق میں ہونے والےمظاہروں میں یہ بینر / پوسٹر ایجاد ہوا اور استعمال ہوا۔

“My body, my choice”
یعنی، حمل ٹھہرانے کے لئے بھی “ میرا جسم میری مرضی” اور حمل گرانے کے لئے بھی“ میرا جسم میری مرضی”۔
یہ ہے اس نعرے کا پس منظر۔

امریکہ میں 1860 سے اسقاط حمل کو جرم قرار دینے کی تحریک آج تک جاری ہے۔ حمل گرانے کے حق میں بھی زوردار تحریکیں چلتی رہی ہیں اور اس کے حق میں سینٹ میں مشروط بل بھی پاس ہوا تھا۔ پھر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی ، پھر قومی سطح پر بحثیں ہوتی رہیں۔ عدالتیں اس کے حق میں اور خلاف فیصلے کرتی رہیں، ہر ریاست نے اپنا قانون وضع کیا اور ہر سیاسی پارٹی نے خوا وہ ریپبلیکن ہو یا ڈیموکریٹس، اس مسئلے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور امریکی معاشرہ اسقاط حمل کے مسئلے پر آج بھی منقسم ہے۔

جو حمل گرانا چاہتی ہیں( ان میں پندرہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کر چوالیس سال کی عمر تک کی عورتیں شامل ہیں) وہ یہ بینر اٹھا کر مظاہرہ کرتی ہیں۔
My body my choice

اس مسئلے کے خلاف امریکی ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر “میرا جسم میری مرضی” کے جنسی فعل کے نتیجے حمل ٹہر جاتا ہے اور حمل گرانے کے لئے بھی”میرا جسم میری مرضی” کی منطق ہے تو جسم کے استعمال کے نتیجے میں جس بچے کی زندگی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اس کی زندگی کو ختم کرنے کے لئے عورت کی یہ “جسمانی مرضی” قانونی اور اخلاقی اعتبار سے جرم ہے۔

دنیا بھر میں کہیں بھی (امریکہ سمیت) خواتین کے عالمی دن کی مارچ ہو ، سیمینار ہوں یا مکالمہ ہو یہ بینر کبھی بھی نظر نہیں آئےماسوائے پاکستان کے۔

کون نہیں جانتا اور استحصالی طبقات بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مظلوم و محکوم عوام اور اقوام (اس میں عورتیں،مرد، نوجوان، بوڑھے اور بچے سبھی شامل اور متاثر ہوتے ہیں) کی “مرضی” استحصالی نظام اور سامراجیت کو گرانے میں ہے حمل گرانے میں نہیں۔

ظالم اور مظلوم دو طبقات میں منقسم دنیا میں اس طرح کے موضوعات پر معاشرے کی تقسیم حکمران طبقات کے حق میں جاتی ہے۔ اس کام کے لئے این جی اوز بنتی ہیں ، فنڈ وصول کرتی ہیں اور نمک حلال کرتی ہیں۔
کچھ بعید نہیں کہ یہ بھی کہا جانے لگے
“ میری این جی او، میری مرضی”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے