فرام ہارسز ماؤتھ!

دو چار روز پہلے تک پورے ملک میں شادیوں کی اس قدر بھرمار تھی کہ خربوزے کو دیکھ کر دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑنے لگے تھے۔ یعنی اچھے خاصے شرفا کو میں نے دیکھا کہ شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں بلکہ ایک بزرگوار نے مجھ سے کہا ’’عزیزم بڑھاپے میں انسان کو ’’رفیقِ کار‘‘ کی نہیں ’’رفیقِ حیات‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر تمہاری نظروں میں کوئی مناسب سا رشتہ ہو تو بتانا مگر عمر پچاس برس سے کم نہیں ہونی چاہئے مگر میں تو جانتا تھا کہ مرد تو ساٹھ ستر برس کی عمر میں بھی شادی کر لیتے ہیں مگر خواتین پچاس کے سن میں عموماً اس قسم کے اقدام سے گریز کرتی ہیں چنانچہ میں نے عرض کیا کہ عمر کی یہ شرط شاید پوری نہ ہو سکے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو پچیس پچیس برس کے دو رشتے تلاش کر لئے جائیں۔ یہ سن کر بزرگوار نے تحسین بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’برخوردار میں جانتا ہوں تم جو فیصلہ بھی کرو گے وہ مثبت اور صحیح ہوگا لہٰذا مجھ سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں، جو مناسب سمجھو، کرو‘‘ حالانکہ اس صورت میں ’’رفیقِ حیات‘‘ ہی نہیں ’’رفیقِ کار‘‘ کا کردار بھی ادا کرنا پڑنا تھا۔

میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اگرچہ ان دنوں شادیوں کا زور قدرے ٹوٹا ہے مگر پھر بھی کافی زور ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی شادی میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور ’’منہ دکھائی‘‘ دیتے ہوئے ایسے ایسے منہ دیکھنا پڑتے ہیں جنہیں ’’در فٹے منہ‘‘ کہا جاتا ہے، ایک دلہا کو منہ دکھائی دیتے ہوئے تو میں نے یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنے رخ زیبا سے سہرا نہیں ہٹائے گا، کیونکہ موصوف کے ماتھے اور سر میں کوئی حد فاصل نہیں۔ بس ایک ’’رڑا میدان‘‘ ہے جو کسی کام کا نہیں بلکہ نرا صابن کا خرچہ ہے کیونکہ منہ دھوتے ہوئے سر بھی ساتھ دھونا پڑتا ہے، مجھے سہروں میں لپٹے ہوئے دلہے کچھ اچھے نہیں لگتے مگر اس روز محسوس ہوا کہ سہرا تو ’’ستار العیوب‘‘ ہے۔

ایک اور اسی قسم کے دلہا سے ان دنوں میری ملاقات ہوئی جو بہت خوش نظر آ رہے تھے میں نے کہا ’’ماشاء اللہ تم تو بہت خوش ہو، مگر فریق مخالف کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے ’’وہ مجھ سے زیادہ خوش ہے‘‘ میں نے کہا ’’وہ کیسے‘‘ بولے وہ ایسے کہ تم نے مجھے دیکھا ہے، اسے نہیں دیکھا۔ مجھے یہ دلہا میاں اپنی اسپورٹس مین شپ کی وجہ سے اچھے لگے اور مجھے اس امر کی خوشی ہوئی کہ شادی کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی حسِ ظرافت برقرار رکھی ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں حسِ ظرافت کا مظاہرہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ شادی کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔

انہی دنوں ایک اور ’’نو گرفتار‘‘ سے میری ملاقات ہوئی، موصوف اپنی رجائیت کے حوالے سے ’’مسٹر چیئر فل‘‘ ہیں، میں نے انہیں راستے میں روک لیا اور پوچھا کہ شادی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آپ کا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے دوسری شادی کے بارے میں؟ میں ان کے اس سوال پر سٹپٹا گیا اور کہا ’’نہیں میاں میرا مطلب یہ ہے کہ شادی کرنا کیسا تجربہ ہے؟ بولے ’’بہت اچھا تجربہ ہے۔ میرے خیال میں ہر اس شخص کو شادی کرنا چاہئے جو شادی کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا ہو‘‘۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ مطلب یہ کہ جس طرح نابینا حضرات کو کوئی اور کام نہ ملے تو وہ امام مسجد بن جاتے ہیں۔ بی اے پاس کو دفتر میں نوکری نہ ملے تو وہ اسکول ٹیچر ہو جاتے ہیں اور ان دنوں کسی کو نان میڈیکل میں داخلہ نہ ملے تو وہ میڈیکل میں داخلہ لیتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص زندگی میں جو کام کرنا چاہتا ہے وہ نہ کر سکے تو اسے شادی کرنا چاہئے، اس کے بہت فائدے ہیں۔ مثلاً یہ کہ سست سے سست انسان میں سیر کی عادت ڈویلپ ہو جاتی ہے چنانچہ وہ شادی کے اگلے ہی مہینے گھر پر بیٹھنے کے بجائے صبح کے ناشتے سے پہلے دوپہر کے کھانے اور ہر رات کے کھانے سے پہلے سیر کے لئے گھر سے نکل جاتا ہے بلکہ لمبی سیر پر نکل جاتا ہے۔ اس سے اس کی صحت اچھی رہتی ہے کیونکہ ماہرینِ طب کے مطابق انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت آزاد فضا میں گزارنا چاہئے۔ ’’بالکل ٹھیک ہے اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ؟‘‘ میں نے پوچھا ’’فی الحال تو یہی ایک فائدہ سوجھا ہے ویسے بھی میں رجائیت پسند ضرور ہوں مگر اتنا نہیں، جتنا تم سمجھ بیٹھے ہو‘‘ موصوف نے جواب دیا۔

تاہم شادی کے حوالے سے کئے گئے سروے کے نتیجے میں جو ایک نکتہ سامنے آیا ہے وہ میں نے ایک ایسے منہ سے براہِ راست سنا ہے جس کے چہرے کی مماثلت گھوڑے سے بہت زیادہ ہے چنانچہ ان معلومات کو ’’فرام ہارسز مائوتھ‘‘ کہا جا سکتا ہے، میرے اس دلہا دوست کا کہنا ہے کہ شادیوں کے مواقع پر دیے گئے مخالف اور سیاسی جماعتوں کے وعدے وعید کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے چاہئیں، میں اس بےجوڑ قسم کے بیان پر حیران ہوا تو اس نے کہا ’’حیرانی کی کوئی بات نہیں‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ میری شادی کے موقع پر جو تحائف موصول ہوئے تو پتا چلا کہ ایک ایک آئٹم کثیر تعداد میں موصول ہو گئے ہیں مثلاً ایک سو استریاں تین سو ٹی سیٹ 182 پرفیومز،6 سوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، اتنی تعداد میں موصول ہوئیں جو میرے کسی کام کی نہیں۔ سوائے اس کے کہ میں جنرل اسٹور کھول لوں جبکہ یہی کام اگر منصوبہ بندی کے تحت ہوتا تو مجھے اپنی تمام ضروریات کی چیزیں موصول ہو جاتیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے