"کرونا وائرس اور مذہب "

کرونا وائرس دنیا کے ایک کونے سے نکلتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔اب تک کی معلومات کے مطابق پوری دنیا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے اس کو عالمی وباء قرار دیا گیا ہے ۔

جہاں پر اس کی ویکسین کو تیار کرنے اور اس وائرس سے بچنے اور حفاظتی اقدامات کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں وہاں ہی مذہب اور سائنس میں مقابلہ کرتے افراد آپ کو با آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں ۔

ہمارے ہاں کرونا وائرس کو مذہب کیساتھ مسلسل جوڑا جا رہا ہے کوئی وائرس کو مذہبی بنیادوں پر حملہ آور سمجھ رہا ہے تو کوئی وائرس کا علاج قرآنی آیات اور امام زمانہ ع کے بال میں ڈھونڈ رہا ہے ۔

آگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو ایک طرف مذہبی طبقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ ہر آفت اور وباء کا علاج مذہب کے پاس ہے تو دوسری طرف دیسی لبرلز کی فوج ہے جن کے نزدیک وائرس اب تک انسانوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں کو بھی ختم کرتے جا رہا ہے ۔ان کے نزدیک یہ صدی شاہد مذہب کی آخری صدی ہے ۔

حالانکہ ہمیشہ کی طرح دونوں اطراف کے لوگ دو الگ الگ انتہاوں پر ہیں اور دونوں اطراف کے لوگ مذہب اور سائنسی تفہیم سے نا بلد ہیں ۔

اصل میں یہ سوالات ان مفسرین اور علماء کرام سے پوچھنے چاہیں جو ہر سائنسی ایجاد کو قرآن سے ڈھونڈ لاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے پر مصر رہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو قرآن نے 14 صدیاں پہلے بتا دیا تھا ۔ ایسے افراد قرآن کی تفسیر میں سائنسی اسلوب استعمال کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کے پاس سائنس کی ابتدائی چیزوں سے بھی آشنائی نہیں ہوتی ۔

جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ لوگ سائنسی ایجادات اور سائنسی چیزوں کو مذہب سے جوڑنا شروع کر دیتے ہیں اور مایوسی کی صورت میں مذہب کو ناکام اور ناکافی سمجھتے ہیں۔ جس کی حالیہ مثال کرونا وائرس سمجھی جا سکتی ہے۔

سائنس اور مذہب فلسفہ نامی درخت کی دو اہم ترین شاخیں ہیں جن میں کچھ حد تک مماثلت ہو سکتی ہے مگر ان کے میلانات اور رجحان مختلف ہیں جبکہ دنیا کی ترقی دونوں کے اعتدال سے ہی ممکن ہے ۔

انسان کی زندگی عقل ،جبلت اور روح سے عبارت ہے اور ان کی روشنی میں انسان اپنی شناخت کا تعین کرتا ہے ۔انسانیت کی بقاء اسی میں ہے کہ وہ تینوں کو ساتھ لیکر چلے اگر انسان کا جھکاو تینوں میں سے کسی ایک کی طرف ہو گیا تو پھر انسانیت کا بیچ بونا کسی معاشرے میں ممکن نہ ہو پائے گا

ان مذکورہ تینوں میں سے مذہب کا تعلق روح کیساتھ ہے اور سائنس کا عقل کیساتھ جبکہ اگر دونوں میں سے ایک کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تو اس کے نتائج بہت خوفناک حد تک ہو سکتے ہیں ۔تاریخ میں جنگ عظیم اول اور دوم جنہوں نے کروڑوں افراد کو لقہ اجل بنایا ،عقل کا نتیجہ تھیں اگر ان کیساتھ مذہب (روح) کی چھاپ ہوتی تو آج ہماری تاریخ میں کروڑوں افراد کا خون شامل نہ ہوتا اور ہماری تاریخ سرخ داغوں سے پاک رہتی ۔

مذہب نے کبھی عقلی علوم کی نفی نہیں کی اور ہمیشہ سائنسی علوم کو انسانی ترقی کے لئے ناگزیر سمجھا مگر ان سب سے بڑھ کر مذہب کا مدعا یہ رہا ہے مذہب نے انسان کو یہ باور کروایا کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک دنیا ہے جس کے لیئے انسان کو تیاری کرنی چاہیے اور اس مفہوم کے لیئے مذہب انسان کو کچھ قوانین فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے انسان دوسری زندگی کی بہتری کو ممکن بنا سکتا ہے ۔

اب عالمی وباء کو مذہب کیساتھ جوڑنا اور یہ کہنا کہ مذہبی تصورات کی عمارت منہدم ہو چکی ہے۔کرونا وائرس نے دعا ،قضا و قدر یہاں تک کے خدا کے تصور کو بھی پاش پاش کر دیا ہے بلکل نا معقول بات ہے۔اس طرح تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ سائنس نے بھی کرونا وائرس کے سامنے گھنٹے ٹیک دیئے اور سائنس ابھی تک ویکسین بنانے میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ دنیا کی سوپر پاورز کی ٹیکنالوجی بھی مفید ثابت نہیں ہوئی ۔

اتنی لمبی چوڑی بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مذہب اور سائنس کسی حد تک مماثل ضرور ہیں مگر ہر ایک کی اپنی ایک ڈومین ہے اور اپنی افادیت ہے جو کام سائنس کے ذمہ ہے وہ مذہب کے ذمے نہیں ہے اور جو مذہب کے ذمہ ہے وہ سائنس کا موضوع بلکل بھی نہیں ہے ۔سائنس اور مذہب انسانی سماج کی ترقی اور خوشحالی کے لیئے یکساں اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں اس میں مماثل ہیں کہ کس طرح انسانی سماج کو بہتر اور کامیاب سمت کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے