’’ماموں فوت ہو گئے‘‘

جس پیشے یعنی صحافت کو اوائل عمری ہی میں جنونی لگن کے ساتھ اپنایا تھا ان دنوں شدید نوعیت کے بحران کا شکار ہے۔ اس کی وسعت وگہرائی کو روزانہ کی بنیاد پر بھگتے ہوئے مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ صحافت کی جو شکل ہمارے ہاں انگریز کے زمانے میں متعارف ہوکر آج سے چند ہی سال قبل تک تنوع وتوانائی کی بدولت برقرار رہی اپنا وجود قائم نہیں رکھ پائے گی۔ صحافتی ادارے معاشی مشکلات کے سبب بند ہوتے رہیں گے۔ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔معاشی بحران فصیح الرحمن جیسے میرے کئی ساتھیوں کو نسبتاََ جواں سالی میں گھٹ گھٹ کر مرنے کو مجبور کردے گا۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ شدید معاشی بحران کی زد میں آئے صحافیوں کے دل ودماغ پر چھائی اذیتوں کا خلقِ خدا کی اکثریت کو کماحقہ ادراک نہیں ہے۔ہمدردی کے جذبات اس تناظر میں رونما ہونہیں سکتے۔

عوام کی اکثریت کو بلکہ یقین دلایا گیا کہ صحافی اپنی مبینہ ’’پاٹے خانی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’اوقات‘‘ سے باہر نکل گئے تھے۔خود کو برتر مخلوق سمجھنا شروع کردیا۔بدعنوان سیاست دانوں کو بلیک میل کرکے لفافے لیتے رہے۔کاروباری افراد سے ناجائز فائدے اٹھاتے رہے۔ ان کا ’’مکوٹھپنا‘‘ اب ضروری ہوگیا ہے۔’’سچ‘‘ اور ’’حق گوئی‘‘ کے فروغ کے لئے ویسے بھی ٹویٹر،فیس بک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم ایجاد ہوچکے ہیں۔ان سے رجوع کرتے ہوئے آپ ’’باخبر‘‘ اور باعلم‘‘ رہ سکتے ہیں۔اخبارات اور ٹی وی چینل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان سے وابستہ افراد کے ’’نخرے‘‘ کیوں برداشت کئے جائیں۔روایتی میڈیا کو جب عوام کی بے پناہ اکثریت ’’اضافی‘‘ یا فضول شے شمار کرناشروع ہوجائے تو مجھ جیسے افراد شدید نفسیاتی بحران کا شکارہوجاتے ہیں۔صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا تھا تو غالبؔ کے بیان کردہ ’’غیب‘‘ سے سو طرح کے مضامین ذہن میں سیلاب کی صورت امڈ آتے تھے۔

اب خود کو سو طرح کے بہلاوے دے کر قلم اٹھانے کو مائل کرنا پڑتا ہے۔جس موضوع پر کمال روانی سے بات ہوسکتی ہے اسے بیان کرنے کے لئے بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھانا لازمی محسوس ہوتا ہے۔’’کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘والا خوف لاحق ہوچکا ہے۔گھٹن کی اس فضا میں کورونا وائرس نمودار ہوگیا جو دُنیا کے بیشتر ممالک میں کامل Lock Downمسلط کرچکا ہے۔ Social Distanceکا تقاضہ افراد کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر گھروں تک محدود ہونے کو مجبور کررہا ہے۔خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھے ذہنوں میں خوش گوار یادوں کے درنہیں کھلتے۔ہفتے کی صبح اٹھا تو میری ٹویٹر ٹائم لائن پر بریگیڈئر اسد منیر کا ذکر ہورہا تھا۔زندگی کی بھرپور توانائی کے مجسم اظہار اس مسلسل مسکراتے شخص نے احتساب بیورو کے خوف سے آج سے ایک سال قبل خودکشی کرلی تھی۔

میں سوچ رہا تھا کہ اسد بھائی کی بیوی اور بیٹی سے رابطے کرکے ان کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کی کوشش کروں۔خود کو ان سے رابطے کے لئے تیار کررہا تھا کہ میری بیوی ’’ماموں مرگئے‘‘کی چیخ کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوگئی۔وہ ڈاکٹر مبشر حسن کی لاڈلی بھانجیوں میں شامل تھی۔جب وہ ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر خزانہ تھے تو کئی بار صبح اٹھاکر اپنے ہاتھ سے اس کی چٹیابنانے کے بعد اسے فوکس ویگن گاڑی میں بٹھاکر اسلام آباد کے ایک سکول چھوڑنے جاتے ۔وزراء سے مختص کروفر انہوں نے کبھی Enjoyنہیں کیا۔خاندانی اور ذاتی اعتبار سے بہت خوش حال ہوتے ہوئے بھی انتہائی سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے۔جب تک صحت نے اجازت دی بس میں بیٹھ کر لاہور سے اسلام آباد آتے۔کانفرنسوں میں شرکت کے لئے انہیں ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور پنج ستاری ہوٹلوں میں قیام کی دعوت دی جاتی۔ وہ مگر اپنی بہن کے گھر رہنے تو ترجیح دیتے۔

علی الصبح اُٹھ کر اپنی چائے خود بنانے کی عادت تھی۔ACیا ہیٹر ان کے کمرے میں اکثر بند ہی پائے گئے۔موسم کی سختی سے پریشان ہونے کے بجائے اس سے گزارہ کرنے کی تلقین کرتے۔ان سے تعلق بنے 38سال گزرگئے۔ اس دوران ان کے ساتھ کئی گھنٹے طویل گفتگو بھی ہوتی رہی ہے۔میرے لئے ناممکن ہے کہ صحافیانہ غیر جانب داری کے ساتھ ان کی سیاسی زندگی اور نظریات پر تبصرہ آرائی کرسکوں۔چند باتیں مگریاد دلانا ضروری ہے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ میں نے انہیں ایک لمحے کو بھی یہ کہتے نہیں سنا کہ جب وہ بھٹو صاحب کے طاقت ور ترین وزیروں میں شامل تھے تو فلاں فلاں موقع پر انہوں نے کوئی اہم ترین فیصلہ کرنا تھا۔انہیں اس فیصلے سے روکنے کے لئے فلاں فلاں نے کس نوعیت کا دبائو ڈالا یاانہیں ’’خریدنے‘‘ کی کوشش کی۔ 1967میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام ان کے لاہور والے گھر میں ہوا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔

اس زمانے کی داستانیں میرے صحافیانہ اشتیاق کے باوجود کبھی بیان کرنے کو آمادہ نہیں ہوئے۔ہمیشہ ’’آج‘‘ کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی۔ شخصیات کے بارے میں گوسپ کی انہیں ہرگز طلب محسوس نہیں ہوتی تھی۔آج سے کئی برس قبل انہوں نے ’’اقتدار کا سراب‘‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان جیسی ریاستوں میں ’’حکومتوں‘‘ میں بیٹھے افراد کے پاس اصل اختیار نہیں ہوتا۔حتمی فیصلہ سازی وہ ریاستی ادارے ہی کرتے ہیں جنہیں انگریزی زبان میں Deep Stateیا ترکی میں ’’دریں دولت‘‘ کہا جاتا ہے۔دل کی اتھاہ گہرائیوں سے انہیں آخر دم تک یہ گماں رہا کہ 1970کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں Deep Stateسے نجات حاصل کرنے کے بے پناہ امکانات نصیب ہوئے تھے۔یہ موقعہ ضائع کردیا گیا۔ایک تاریخی موقعہ کے زیاں کا مگر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سمیت کسی اور شخص یا شخصیات کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔سماجی حرکیات ہی کوبنیادی ذمہ دار سمجھتے رہے۔

ان کی زندگی کا اہم ترین پہلو یہ بھی تھا کہ خاندان کے سکول اور کالج کے ابتدائی سالوں میں جاتے بچوں سے طویل گفتگو کرتے۔بجائے لیکچر دینے کے وہ سادہ زبان میں اٹھائے سوالات کے ذریعے ان کے ذہنوں میں موجود خیالات کو جاننے کی کوشش کرتے۔اس ضمن میں بچوں سے زیادہ بچیوں کی گفتگو کو حیران کن خلوص اور سکون سے سمجھنے کی کوشش کرتے۔میری بڑی بیٹی نے ایک روز دوپہر کے کھانے میں میز پر بیٹھے ہوئے اعلان کیا کہ ’’اے لیول‘‘ کی تیاری کرتے ہوئے اس نے دریافت کیا ہے کہ بھٹو صاحب کی حکومت نے صنعتوں کو قومیاکر پاکستان کو اقتصادی اعتبار سے مفلوج بنادیا تھا۔میری ساس اور بیوی اس کے اعلان سے ذرا شرمندہ ہوئے۔میں نے ڈھٹائی سے فقط اپنی بیٹی کو یاد دلایا کہ وہ 1970کی دہائی میں صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کرنے والے وزیر خزانہ کے ساتھ بیٹھی ہے۔

ڈاکٹر مبشر حسن نے مگر اپنے ’’دفاع‘‘ میں کچھ بھی نہ کہا۔ کھانے کی میز سے اُٹھ کر میری بیٹی کو بلکہ اپنے ساتھ بٹھالیا اور قہوہ پیتے ہوئے اس کے ذہن میں موجود علم معاشیات کی مبادیات کو کھلے ذہن کے ساتھ جاننے کی کوشش کرتے رہے۔ اسے ’’دلائل‘‘ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کو اُکسایا کہ اس کی دانست میں پاکستان اقتصادی اعتبار سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بھرپور انداز میں ترقی کیوں نہ کرپایا۔اس گفتگو کے بعد شام کی چائے پر بیٹھے ہوئے انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے صرف یہ کہا کہ ’’تمہارے دوست‘‘ یعنی پیپلز پارٹی والے بھٹو صاحب کے بعد بھی دوبار اقتدار میں رہے ہیں۔

ہمارے بچوں کو جو ’’تاریخ‘‘ پڑھائی جارہی ہے اس سے قطعاََ غافل رہے۔ اسے ’’درست‘‘ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ملال ان کے مزاج پر لیکن کبھی حاوی نہیں رہا۔ہمیشہ یہ امید رکھی کہ سماجی حرکیات بالآخر اس ملک کو بہتری کی طرف ہی لے جائیں گی۔ان کا اصرار رہا کہ سماج میں جو اتھل پتھل ہوتی ہے وہ بالآخر ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر خوش حالی سے محروم ہوئے Left Behindsمیں ’’تبدیلی‘‘ کی شدید خواہش اجاگر کرتی ہے۔سیاسی کارکن کا اصل فریضہ یہ ہے کہ وہ سماجی حرکیات پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے مذکورہ خواہش اُبھرنے کا شدت وخلوص سے انتظار کرے اور خود کو ’’روح عصر‘‘ سے جوڑے رکھے۔ان کا حقیقی تاسف یہ رہا کہ ہمارا معاشرہ ایسے سیاسی کارکنوں سے محروم ہورہا ہے۔ یہ امید مگر جگائے رکھی کہ This Too Shall Pass۔زندگی کے تلخ وترش حقائق کے ساتھ نبھاہ کرنے والے ڈاکٹر مبشر حسن کی طویل عمری کا راز بھی شاید امید سے مالامال دل کا کبھی ہار نہ ماننے والا رویہ تھا۔ میں شدید حسرت سے اپنے ہم عصر صحافیوں اور سوچنے سمجھنے والوں کے لئے فقط اس رویے کی دُعا ہی مانگ سکتا ہوں۔ اپنے تئیں اگرچہ بے بس ہوا محسوس کرتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے