کورونا اور ہم

کل رات ٹورنٹو سے عزیز دوست ڈاکٹر سید تقی عابدی کا فون آیا اور آج پہلی بار ہم نے ادب اور کتاب کے کسی واسطے کے بغیر گفتگو کی۔

تقی بھائی پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں آبائی تعلق حیدر آباد دکن سے ہے اور اُن کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں عُرف عام میں Perfectionist یا تکمیل پسند کہا جاتا ہے کہ وہ جس بھی کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں اُسے نقطہ کمال تک پہنچا کر چھوڑتے ہیں ۔ آج اُن کے لہجے میں غیر معمولی تشویش تھی اور وہ بار بار مجھے کورونا سے احتیاط کی تدابیر بتا رہے تھے کہ اُن کی تحقیق اور تجربے کے مطابق آیندہ تین ہفتوں میں اس وائرس کے پاکستان اور بھارت میں پھیلنے کا بہت زیادہ احتمال ہے ۔

گفتگو کے دوران یہ حقیقت بار بار دامن کش رہی کہ مغرب میں حکومتوں کی ذمے داری، سائنس اور ٹیکنالوجی کی عام آدمی تک آسان رسائی ، آبادی کی کمی اور حفاظتی اقدامات کی فراہمی کے باعث کسی بھی وبائی مرض کو کنٹرول کرنا نسبتاً آسان ہے اس کے باوجود کورونا کے خوف نے اُن کی زندگی کے معمولات اور مضبوط اکانومی کی چُولیں ہلادی ہیں اس وائرس کے پھیلنے اور اس کی تباہ کاری کے امکانات بہت زیادہ ہیں جن مریضوں میں اس وائرس کی موجودگی ثابت ہوجائے اُن کو کوارن ٹائن میں رکھنے کے وسائل اس قدر کم اور محدود ہیں کہ عملی طور پر انھیں چودہ دن تک تنہائی اور میل جول سے محفوظ رکھنا شائد ممکن ہی نہیں سو جب تک اس کے لیے کوئی باقاعدہ اور موثر ویکسین دریافت نہیں ہوجاتی زیادہ آبادی والے ملکوں اور خطوں کو زیادہ خطرہ ہے۔

اب جہاں تک تاریخِ عالم میں مختلف وباؤں کے پھیلاؤ ، ان کی وجوہات، علاج اور تباہ کاریوں کا ذکر ملتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ کو چھوڑ کر زیادہ تر کا تعلق فطرت کے خلاف جینے اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے ہے۔ پرانے وقتوں میں جب زندگی سادہ اور محنت طلب تھی لوگ بنیادی اور صحت مند خوراک کھانے، صاف ہوا میں سانس لینے اور اپنے جسم کو سخت کوش بنانے کی وجہ سے کئی ایسی بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے جو آج کل اس قدر عام ہیں کہ دنیا میں دوا سازی کی صنعت کا شمار سب سے معروف اور نفع آور صنعتوں میں ہوتاہے اور ان کی کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ دہشت کی فضا ہے جو بعض اوقات جان بوجھ کر بھی پیدا کی جاتی ہے۔

شروع شروع میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ کورونا وائرس بھی ایک شوشہ ہے جسے کچھ خاص مقاصد کے لیے ہوا دی جارہی ہے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کی جیبوں سے ناقابلِ شمار دولت نکال کر اپنے قبضے میں کرلی جائے گی، اس خیال کی تائید میں ڈائی بیٹیز یعنی شوگر کی مثال دی جاتی ہے کہ پچاس کی دہائی میں انسانی جسم میں ایک مخصوص تحقیق کے بعد اس کی بالائی سطح کو 160کے بجائے 140کردیا گیا اور یوں ایک ہی جھٹکے میں دنیا میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں کروڑوںکا اضافہ ہوگیا ۔ اس طرح کی کچھ اور مثالیں بھی موجود ہیں لیکن کورونا کے ضمن میں اب یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ یہ وائرس نہ صرف خود رو ہے بلکہ فی الوقت اس کا پھیلاؤ بھی ایسا وسیع اور خوفناک ہے کہ جس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔

جس شدت اور تیزی سے اس وائرس کی نوعیت اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اور علاج پر تحقیق اور محنت کی جارہی ہے یہ دعا بھی ہے اور امکان بھی کہ بہت جلد اس کی ایسی ویکسین تیار ہوجائے گی جو مکمل طور پر اس کا سد باب کرسکے مگر سوال تو یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر اطمینان سے رہنے کے لیے فطرت کے ساتھ جس طرح کے تعلق کی ضرورت ہے اگر اُس کو بحال نہ کیا گیا تو اسی طرح کی کسی اور صورت حال کا پیدا ہونا ممکن ہی نہیں۔

ایک طرح سے لازمی بھی ہے یعنی یہ کورونا نام بدل کر کسی ا ور شکل میں ظاہر ہوتا رہے گا اور چونکہ یہ کسی رنگ ، نسل اور جغرافیہ کی سرحد سے بے نیاز ہے اس لیے یہ ایک سچ مچ کا بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس میں اقوام متحدہ کے پانچ ویٹو پاور کے حامل ممالک کی طرح کسی کو کسی بھی طرح کا استثنیٰ حاصل نہیں ہے، اسی طرح یہ وائرس صحت کے ساتھ ساتھ ملکوں کی معیشت کا بھی دشمن ہے، آج ممکن ہے کہ امیر ممالک اپنی محفوظ دولت کی وجہ سے وقتی طور پر اس بَلا کو جھیل جائیں مگر آگے چل کر بقول اسلم انصاری ایسی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ

دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا

میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

بار بار ہاتھ دھونے، مصافحے سے گریز، ہجوم والی جگہوں سے پرہیز یہاں تک کہ اجتماعی عبادات کی وقتی طور پر معطلی بلاشبہ ایسے اقدامات ہیں جن کی پابندی اس وائرس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔ اسکولوں ، سرکاری دفتروں ، کھیل کے میدانوں، سفر کے ذرائع اور ہوٹلنگ کی بندش وغیرہ سے بھی اچھے نتائج ہوسکتے ہیں مگر ہمیں یہ بات بھی دھیان میں رکھنی چاہیے کہ اس سے کروڑوں افراد اور بالخصوص روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے افراد نہ صرف بُری طرح سے متاثر ہوں گے بلکہ کچے گھروں اور ایک ہی چھت کے تلے رہنے والے دس دس لوگوں کے لیے بھی ان حفاظتی اقدامات کی پیروی اور پابندی کس قدر مشکل بلکہ نا ممکن ہوگی اور پھر ہمارے موجودہ اسپتال اور ان میں موجود سہولیات بھی اس قدر کم ہیں کہ وہ عام حالات میں بھی عوام کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے۔

ایسے میں کورونا کے دس پندرہ ہزار متاثرین کیا قیامت برپا کرسکتے ہیں اس کا شائد ابھی کہیں حکومت اور میڈیا کو پورا شعور بھی حاصل نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابتدائی طور پر ہم اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اگر ڈاکٹر تقی عابدی کا یہ اندیشہ سچ نکلا کہ آیندہ دو تین ہفتوں میں اس کا زور ہماری طرف منتقل ہوجائے گا تو خدانخواستہ یہ صورت حال قابو سے باہر بھی ہوسکتی ہے سو ضروری ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ان حفاظتی اقدامات کا دائرہ اور ان سے آگاہی کو پورے ملک میں پھیلایا جائے اور باشعور تعلیم یافتہ اور صاحب حیثیت لوگ اسے اپنا فرض سمجھیں کہ انھیں اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے علاقے کے غریب اور کم وسیلہ لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔کورونا وائرس کا یہ حملہ ایک اجتماعی ردِ عمل کا متقاضی ہے اور ہم سب کو مل کر اس کا مقابلہ دعا سے بھی کرنا ہے اور دوا سے بھی ۔

اللہ کرے کہ یہ عذاب ساری دنیا کے سر سے جلد از جلد ٹل جائے مگر اصل بات اس کے دیے ہوئے سبق کو یاد رکھنا اور اس بات کا اہتمام کرنا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر فطرت کے ساتھ مل کر اور اُس کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا راستہ اپنائیں اور اس نظر کو صرف شعر تک ہی محدود رکھیں

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے