مفتی محمد خان قادری : میری چند یادیں

مفتی محمد خان قادری صاحب سے میری شناسائی دور طالب علمی سے تھی۔ وہ ادارہ منہاج القرآن سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے ۔۔۔ سمن آباد( میانی صاحب کے عقب) میں انہوں نے جامعہ اسلامیہ لاہور کی بنیاد رکھی۔میں ان سے دو چار مرتبہ نہیں بےشمار مرتبہ ملا۔۔ ملاقاتوں کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ علم دوست اور طالبانِ علم سے محبت کرنے والے تھے۔کتابیں خریدنے، پڑھنے اوراسلاف کی عربی کتب کا اردو ترجمہ کرنے کا انہیں دیوانگی کی حد تک شوق تھا. فقہی،کلامی اور قانونی مسائل پر بے لاگ تبصرہ کرتے۔ اکابر سے اختلاف کرتے اور بحوالہ و دلیل کرتے۔ وقتاً فوقتاً ایسے علماءکرام سے ملاقات رہی اور اب بھی رہتی ہے جو منہاج القرآن کے دور میں ان کے ساتھ رہے۔ ان کے مطابق، جدید علمی ادارہ مفتی صاحب کا خواب تھا۔

اس لیے وہ ادارہ منہاج القرآن سے وابستہ ہوئے بلکہ وہ اس کے بانیان میں شامل تھے۔۔ انکے شوق کا یہ عالٙم تھا ایک طرف وہ طلباء کرام کے تمام انتظامات کی نگرانی کرتے۔ نمازِتہجد کے لیے تمام طلباء کو بیدار کرتے۔دوسری طرف تحریر وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تقاریر وخطابات کی تدوین و ترتیب کا کام بھی کرتے۔ ادارے کی میٹنگز میں بھی شریک ہوتے تھے۔اسی دوران،انہوں نے درسی علوم پہ بھی کتب لکھیں۔گویا وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ نظریاتی پختگی اور ارتقائی عمل انسانی شخصیت میں جاری رہتا ہے اور اس کے ساتھ انسان میں پختگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابتداء میں، مفتی صاحب اپنی پہلی محبت(منہاج القرآن) کا ذکر کرتے لیکن وقت کے ساتھ انہوں نے اس کا ذکر کرنا چھوڑ دیاتھا۔

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے”سپاہ انقلاب” کی بنیاد رکھی۔ ملک بھر سے غالباً ایک لاکھ سپاہ انقلاب تیار کرنے کا اعلان بھی کیا۔۔ مفتی صاحب کا خیال تھا کہ قادری صاحب نے بعد میں،اپنے طےکردہ راستے کو ترک کردیا اور سیاست کے "بدنام زمانہ” کھیل میں کود گئے لیکن انقلاب کا واضح "روڈمیپ” مجھے کبھی مفتی صاحب سے نہ مل سکا۔ اگر ایک لاکھ یا دس لاکھ سپاہی تیار کر بھی لیے جاتے تو ان کا مصرف کیا ہوتا۔؟ خاص طور پر اس دور میں جب عسکری اور دہشت گرد تنظیمیں انقلاب کے نعروں سے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں۔ انقلاب کے نام پر جمع کیے جانے والے افراد کس طرح پاکستان کے موجودہ نظام سے نکل کر انقلاب لا سکتے۔

طاہرالقادری صاحب شاید اس صورتحال کو بھانپ گئے تھے اس لئے انہوں نے سیاست کا پُرامن راستہ اختیار کیا اور انقلاب سے "یوٹرن” لے لیا۔ اگرچہ علماء و عوام اہلسنت کی طرف سے عملی سیاست کی بھی بھرپور مخالفت کی گئی۔سب کی خواہش یہی تھی کہ قادری صاحب "علم وتعلیم” کے میدان میں اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھیں۔ مفتی محمد حسین نعیمی صاحب کا یہ تبصرہ خوب تھا کہ” اللہ ہی جانتا ہے قادری صاحب سے کیا گناہ ہوا جس کی سزا سیاست میں آنے کی صورت میں انہیں ملی ہے” ہم نہیں جانتے وہ گناہ کیا تھا۔ تھا بھی یا نہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وابستگانِ منہاج القرآن کے جذبات کا خون بہت بے دردی سے ہوا۔ ان کی توقعات اور امیدوں کے قتل کا گناہ قادری صاحب کے سر ضرور آتا ہے۔

مفتی محمد خان قادری صاحب مرحوم و مغفور نے اس دور میں اپنی علیحدہ شناخت بنائی جب مسلک بریلوی کے قائم کردہ پیراڈائم سے مختلف سوچنا "گناہ کبیرہ” سے کم نہیں تھا بلکہ یوں کہئیے "حق و باطل” کا معیار یہی تھا۔ انہوں نے اپنے اساتذہ کی ناراضگی کے باوجود "توسّع و اتحاد” کا راستہ اختیار کیا۔ مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب(جامعہ نظامیہ) نےسرزنش کے انداز میں مفتی محمد خان قادری صاحب کا ذکر کئی مرتبہ میرے سامنے کیا۔ وہ منہاج القرآن میں شمولیت کے شدید مخالف تھےاور بعد میں مفتی صاحب کی منہاج القرآن سے علیحدگی کو اپنے موقف کےدرست ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے۔

مفتی محمد خان قادری مخلص،جفاکش اور مستغنی انسان تھے۔وہ دنیا کے نہیں دین کے طالب تھے۔ مسلک اہل سنت میں منفرد شان اور مقام کے مالک تھے۔میرے دل میں ان کے لئے محبت و احترام کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نظریات و خیالات کے پاسداری کرنے والے تھے۔ وہ مفاد پرستی اورابن الوقتی جیسی مہلک بیماریوں سے پاک تھے۔ ان کی شخصیت سے اسلاف صالحین کے کردار کی ہی نہیں بلکہ افکار کی بھی خوشبو آتی تھی۔ تمام زندگی جس لگن اور جس محبت سے انہوں نے اپنا کام کیا موجودہ علماء کرام کے لیے،اُن کی شخصیت قابل تقلید ہے۔ علمِ دین کی اشاعت و تحصیل کےلئےاستغناء اور مقصدیت کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ یہ صرف ایک مشق رہ جاتی ہےجو دنیاوی مفادات کے حصول میں کارآمد ہوسکتی ہے لیکن آخرت میں ناکارہ و بے قیمت ہے۔
اللہ تعالی مفتی محمد خان قادری صاحب کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔آمین۔

(میں خصوصاً قبلہ مفتی صاحب کے دیرینہ دوست،ہم خیال و ہم راز علامہ خلیل الرحمٰن قادری صاحب سے تعزیت کرتا ہوں۔اللہ تعالی خلیل الرحمٰن صاحب کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔۔آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے