انسان ہونے کی پہلی نشانی

اِس وقت کمپیوٹر کی سکرین پہ ایک امریکی سپر سٹور کی ویڈیو چل رہی ہے جہاں کچھ خواتین سینیٹائزر کی ایک بوتل کی خاطر آپس میں گتھم گتھا ہیں ، ایسی ہی کچھ ویڈیوز برطانیہ کی بھی دیکھیں ، جہاں ٹشو پیپر کے رول حاصل کرنے کیلئے مارا ماری جاری تھی جبکہ یہی صورتحال اٹلی سپین میں بھی نظر آئی ،ساتھ ہی سپر سٹورز سے سامان کی ذخیرہ اندوزی کی کہانیاں تو عام ہو ہی چکی ہیں ،جبکہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے ، کے مصداق اُن لوگوں کی ویڈیوز بھی دیکھ چکے ہونگے جو جان بوجھ کر لفٹ اور بسوں میں کورونا وائرس دوسروں تک منتقل کرنے کی گھٹیا کاوش کر رہے ہیں ۔

[pullquote] کیا آپکو یہ غیر انسانی حرکت لگتی ہے؟ [/pullquote]

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ غیر انسانی حرکت ہے تو آپ سراسر غلط ہیں ۔ انسان ہونے کی پہلی نشانی ہی یہ ہے کہ آپ اپنا بقا سوچیں ، باقی سب سے آپکو کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ حیران نہ ہوں میں اسے ” انسانوں” کے نقطہ نظر سے ثابت کرنے کی کوشش کروں گا ۔

انسان کی تاریخ پہ لکھی بہترین کتابوں میں سے ایک ” ہومو سپینز ” ہے جس کا لکھاری یوہال نواح حراری نامی مشہور مصنف ہے ۔ انسان کی لاکھوں سال پرانی تاریخ بابت بتاتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ انسان لاکھوں سالوں تک انتہائی کمزور مخلوق رہا ہے ، موجودہ انسان جسے "ماڈرن انسان” کہا جاتا ہے اسکی تاریخ محض 10 ہزار سال پرانی ہے ۔

[pullquote]یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دس ہزار سال قبل انسان اچانک ماڈرن کیسے ہوا؟ [/pullquote]

اس بارے میں مصنف کا کہنا تھا کہ اسکی ایک بڑی وجہ ” مذہب” کا ظہور ہے، جس نے انسان کو ایک دوسرے سے منسلک کیا، جس سے انسانوں کا بڑی تعداد میں ایک نقطے پہ جمع ہونا ممکن ہو پایا اور جب وہ یکجا ہوئے تو یہاں سے نسل انسانی نے انقلابی ترقی حاصل کیا ۔

مجھے یاد پڑتا ہے شاید دو سال پہلے کی بات ہے ، کراچی کے کسی چائے خانے کے باہر کچھ دوستوں سے مذہب پہ بحث ہورہی تھی ، اس محفل میں مختلف نظریات رکھنے والے دوست موجود تھے جہاں اکثر حضرات کا یہ کہنا تھا کہ آنے والا دور مذہب سے چھٹکارے کا دور ہے ، سائنس ترقی کر رہی ہے جس سے خدا کی حیثیت معاشرے میں ختم ہوجائے گی ، ویسے بھی مذہب نے محض خون خرابہ ہی دیا ہے ۔

خوش قسمتی سے بات کرنے کا آخری موقع مجھے ملا ۔ کوشش کرتا ہوں کہ وہاں کی گئی بات حرف بہ حرف یہاں لکھ سکوں ۔

دیکھیں آپ نے کہا کہ مذہب ختم ہوجائے گا؟ جبکہ میرا ماننا ہے کہ مذہب کے بنا انسان بمشکل پانچ سو سال بھی اس دنیا میں اپنی حاکمیت برقرار نہیں رکھ سکتا ، یا تو وہ ختم ہوجائے گا یا پھر اس دنیا کا وہ حال کردے گا کہ یہ دنیا رہنے لائق نہیں رہے گی ۔

[pullquote]انسانوں کو باقی جانداروں سے جو شے ممتاز کرتی ہے وہ دو خصوصیات ہیں ۔[/pullquote]

اول اخلاقیات

دوم قربانی کا جذبہ

یہ دونوں خصوصیات ہی انسان میں پیدائشی طور پہ موجود نہیں ہوتی ہیں اور اگر دو لاکھ سال کی انسانی تاریخ ہی دیکھ لیں تو یہ دونوں جذبات آپکو محض دس ہزار سال پرانے ہی ملیں گے ۔

[pullquote]اب اخلاقیات کیا ہیں؟ [/pullquote]

چلیں ایک عام مثال دیتا ہوں ۔

آپ ایک بس میں سوار ہیں جب کہ آپکی سیٹ کے ساتھ ایک بوڑھی کمزور خاتون آ کر کھڑی ہوجاتی ہے ، اگر آپ اُسے بیٹھنے کیلئے سیٹ نہیں دیتے اور خود بیٹھے رہتے ہو تو دنیا کا کوئی قانون آپکو اس پہ سزا وار نہیں ٹھہرائے گا ، پر اگر آپ مذہب کی طرف دیکھیں گے تو اس نے اخلاقیات کو سزا و جزا سے باندھ دیا ہے لہٰذا مذہب یہ اخلاقیات دیتا ہے کہ اگر آپ نے کمزور بوڑھی خاتون کو بیٹھنے کیلئے جگہ دی تو اس پہ آپکو اجر ملے گا اور اگر آپکے جگہ نہ دینے کیوجہ سے وہ گر گئی یا اُسے کوئی نقصان ہوا تو اس سخت دلی کی آپکو سزا ملے گی ، یعنی یہاں مذہب نے انسان کو دوسرے انسان کے لیے باعث خیر بنانے کا پابند کردیا ۔

ٹھیک یہی مثال آپ کسی نابینا کو روڈ کراس کروانے کی لے لیں ، کون سا انسانی قانون آپکو اُسے روڈ کراس کرنے کا پابند بناتا ہے؟ کوئی بھی نہیں ۔

تو یہ ہیں وہ اخلاقیات جو مذہب نے انسان کو دیں کیونکہ انسانی دماغ میں اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا کہ عقل محض خواہشات کی تابع ہوتی ہے اور خواہش میں انسان پہ اپنی ذات غالب ہوتی ہے ، اگر یقین نہیں آتا تو اسی دنیا کی دیگر مخلوقات کو دیکھ لیجئے ۔

[pullquote]اب آتے ہیں دوسرے جذبے کی جانب یعنی "قربانی” [/pullquote]

ایک بات بتائیں وہ بھی خالص انسان کے نکتہ نظر سےکہ ایک طرف آپکی اولاد ہو اور دوسری جانب چالیس انسان ، آپکے ہاتھ میں ہو کہ آپ یا تو اپنی اولاد بچا لو یا پھر چالیس افراد ۔

یہاں اگر بات محض انسانی جذبے کی ہو تو کائناتی اصول کے مطابق ذات کی بقاء اولین ترجیح ہوتی ہے، جب کہ ذات کے بعد اولاد آتی ہے ، دنیا کے حیاتی مخلوقات کا کوئی قانون آپکو اپنے بچے کے بجائے دوسرے افراد کے بارے میں سوچنے کا بھی نہیں کہتا، لہٰذا آپ جھٹ سے اپنی اولاد منتخب کرتے ہوئے چالیس افراد کو مرنے کیلئے چھوڑ دو گے ۔ یہی سب دو لاکھ سال تک جاری تھا لہٰذا انسان گراوٹ کا شکار رہا پر جب مذہب نے "قربانی” کا جذبہ متعارف کروایا تو انسان نے ذات کے بجائے اجتماع پہ زور دینا شروع کردیا ، چالیس لوگوں کے لیے اپنی ذات یا اپنی اولاد کی قربانی پہ اجر عظیم مقرر کردیا ۔

اب اگر آپ ایک لمحے کو سوچیں کہ اس وقت مذہب نہیں ہے تو اس سے جڑی اخلاقیات بھی نہیں ہونگی؟

مجھے آپکے ہاتھ میں پہنی گھڑی پسند آگئی ہے ، طاقت میں آپ مجھ سے کم ہیں تو بتائیں دنیا کی کونسی انسانی نفسیات مجھے اسے حاصل کرنے سے روکے گی؟

فطرت کا قانون تو کہتا ہے جو طاقتور ہے وہ حاکم ہے ، یہی اصول آسمان پہ شاہین کے حوالے سے دیکھا ، سمندر میں شارک اور جنگل میں شیر سے متعلق بھی یہی دنیاوی قانون و اصول موجود ہے تو ہم انسان بھی پھر اس بنا پہ ہی فیصلے کریں گے؟

مجھے آپکی شریکِ حیات پسند آگئی تو دنیاوی قانون تو کہتا ہے کہ یا تو اُسے آپ سے چھین لوں یا پھر آپکو مار کے اُسے اپنے حرم کا حصہ بنا لوں ، آخر انسانی عقل تو خواہش ہی کی غلام ٹھہری لہٰذا کس بنیاد پہ کوئی میرے عمل کو برا جانے گا؟ آخر جنگل ، آسمان اور سمندر میں بھی تو یہی نظام چل رہا ہے ۔

لیکن مذہب اس غنڈہ گردی کو نہیں مانتا ، مذہب اسے حقوق العباد کا نام دے کر کمزور انسان کو آپکی ذمے داری بناتا ہے کہ آپ اُسکی حفاظت کرو نا کہ اس کا استحصال ۔ اگر ایک شخص کو آپکے سامنے سانپ ڈسنے والا ہے آپ اُسے خبردار کر کے اُسکی جان بچا سکتے ہو پر آپ اُسے نہیں بچا رہے تو دنیا کا کوئی قانون اس پہ آپکی پکڑ نہیں کر سکتا ۔ پر مذہب اس پہ آپکی پکڑ کرتا ہے ، آپکی اس بے حسی پہ آپکو عذاب کی خبر دیتا ہے ۔

یہاں اگر آپ کہیں کہ جی فلانی قوم بھی تو مذہب کو نہیں مانتی تو پھر ان میں یہ ہمدردی و ایثار کا جذبہ کیسے ہے؟

اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اسی لیے میں نے مذہب کے بنا پانچ سو سال کا عرصہ کہا ہے تاکہ مذہب کی سکھائی اخلاقیات ہماری ڈی این اے سے نکل سکیں ، یہ مذہب کی سکھائی اخلاقیات ہی ہیں جو لادین ہونے کے باوجود ہماری نفسیات کا کسی نہ کسی طرح حصہ ہیں جنہیں نفسیات سے زائل ہونے میں تین یا چار نسلیں لگ جائیں گی ۔

اب اگر آپ کہتے ہیں کہ مذہب کے بنا انسان زیادہ ترقی کرے گا تو یہ دیکھ لیں کہ موجودہ سائنسی ترقی کا دور آج سے تین چار سو سال قبل شروع ہوا ہے ، ان تین چار سو سالوں میں زیادہ انسانوں کا قتال ہوا یا اُس سے قبل ساڑھے نو ہزار سالوں میں؟ تین چار سو سال چھوڑیں آپ پچھلے سو سال کے ہی اعداد و شمار نکال لیں ۔

آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ سائنس کو مذہب سے مقابلے کیلئے لانا چاہتے ہو جو بذات خود بہت بڑا مذاق ہے ، سائنس رہن سہن اور صحت سہولیات سے متعلق انقلاب ہے جبکہ مذہب اخلاقیات و قوانین کی کنجی ، یہ دونوں یکسر مختلف ہیں تو پھر ان کا موازنہ کیوں ؟

سائنس کے بنا مذہب رہ سکتا ہے پر مذہب کے بنا سائنس محض طاقتور کا ہتھیار ہے جہاں مونارکی تو چل سکتی ہے پر انسانی نسل کی بقاء نہیں ہوسکتی ہے ، بہت کھینچ تان لیا تو بھی محض پانچ سو سال (شاید) انسانی زندگی قائم رہ سکے جبکہ آخر اس کا دنیا اور نسل انسانی کی تباہی ہے ۔

یہاں میں نے بات ختم کردی تھی ، کسی نے کُچھ جواب نہیں دیا یا شاید جواب بنا نہیں ۔

اب آپ آئیں موجودہ صورتحال میں ۔ یہ جو اسٹورز سے سامان بھر بھر کر ذخیرہ کرنے رہے ہیں یہ ظاہر ہے اپنی ذات یا اولاد کیلئے ہی کر رہے ہونگے؟
تو کون سا انسانی قانون اسے غلط کہتا ہے؟

اب جب ہینڈ سینیٹایزر جان بچانے کا ذریعہ ہیں تو اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو مارنا پیٹنا کیوں غلط ٹھہرا؟ کوئی کیوں اپنی جان نہ بچانا چاہے؟

اب ذرا ایک لمحے کے لیے مذہب اور اُسکی بنائی اخلاقیات پسِ پشت ڈال دیں اور کورونا سے ہلاکتوں کا ریشو 3% کے بجائے 30% کردیں .
ایک ہفتے میں اتنے انسان بیماری سے نہیں مریں گے جتنے انسان خود انسانوں کے ہاتھوں مریں گے اور یقین جانیں سائنس بچاری کچھ بھی نہ کر پائے گی کہ یہ اُسکے دائرہ کار میں ہی نہیں آتا کہ انسانوں کو باندھ کر پرامید رکھ سکے ۔

پرسوں میرے دوست نعمان بُخاری صاحب نے سوال پوچھا تھا کہ آپ مشکل صورتحال میں بھی اتنا مثبت کیسے لکھ لیتے ہیں ؟

دیکھیں منفی سوچ یا نا اُمیدی اُس صورت میں ہوتی ہے جب انسان کو لگے کہ جو بھی ہے یہ دنیا ہی ہے ، یہاں آنکھ بند ہوئی تو آگے گپ اندھیرا ہے سب ختم شد error404 ہے ۔ ایسی ہی صورت میں ہم چند اشیاء کے لیے مارا ماری دیکھتے ہیں ، اور یہ سب اُس معاشرے میں زیادہ شدید تر ہوگا جہاں مذہب کمزور ہوگا یا موجود ہی نہیں ہوگا۔ اگر آنے والے وقتوں میں کوئی زیادہ خطرناک جان لیوا وائرس آیا تو آپ اس وقت ان مذہب بیزار معاشروں کی "انسانیت” ملاحظہ کیجئے گا ۔
جب کہ ہمارا مذہب تو کہتا ہے جو یہاں ہے یہ بہت تھوڑا ہے ، یہاں سے جب دوسرے ڈائمینشن جاؤ گے اُسکے سامنے موجودہ دنیاوی حیثیت مچھر کے پر برابر بھی نہیں لگے گی .

تو بتائیں جب یقین یہ ہو کہ یہاں کی تکلیف کے بدلے اور تکلیف کی حالت میں بھی کسی دوسرے انسان کی بھلائی کے بدلے اگلے والے بہتر جہان میں اتنا انعام ملے گا تو انسان اپنے منہ کا نوالہ کسی دوسرے کے پیٹ میں ڈالنے کی دوڑ کیوں نہیں کرے گا؟

میں کوئی مذہبی انسان نہیں ہوں ، عبادت بھی بس برائے نام ہی سمجھیں پر ہاں میں اللہ کے وجود پہ کٹر یقین رکھتا ہوں ، اُسکی وحدانیت اور خدائی پہ رتی برابر شک نہیں کہ اُسکے بنا میں نے بارہا دنیا کا تصور کر کے دیکھا ہے اور یقین جانیں بنا انصاف پسند منصف ، ہے تاج بادشاہ ، ہے پناہ طاقت والی ذات کے ہمارا یہ کائناتی عمل چلنا ممکن نظر نہیں آتا ہے ۔

ایسی افرا تفری والی صورتحال میں صرف وہی پرسکون رہ سکتا ہے جسے اللہ کی ذات پہ بھروسہ ہو ، اگر اس وقت آپ ذخیرہ اندوزی میں لگے ہوئے ہیں محض اپنی ذات کا سوچ رہے ہیں اور پڑوس کی خبر نہیں ہے تو یقین جانیں آپکی نمازیں روزے محض دکھاوا ہی تھیں کہ جب وقت آیا خود کو اللہ کا بندہ ثابت کرنے کا تو آپ ہلکی سے آزمائش پہ ہی اُسکی ذات کے بنائے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال بیٹھے ہیں ۔

بحیثیت مسلمان ہمارے لیے تو یہ روز محشر یا قبر میں جانے سے قبل ہی تمام امتحانات میں سرخرو ہونے کا سنہری موقع ہے ، اپنی ذات پسِ پشت ڈالیں اور اللہ کی مخلوق کی آسانی کیلئے اسباب پیدا کریں ، اگر آپکے پاس ایک روٹی ہے تو کوشش کریں آدھی روٹی اُسے دیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، اگر آپکے پاس اتنا مال ہے کہ دو ماہ کا راشن خرید سکیں تو اپنے لیے ایک ماہ کا لیکر بقیہ ایک ماہ کا راشن اُسکے لیے لیں جو اگلے وقت کا کھانا خریدنے کی بھی گنجائش نہ رکھتا ہو ۔

یہ ہیں وہ اخلاقیات جو مذہب سکھاتا ہے ، جو انسان کو باقی مخلوقات پہ معراج دلاتا ہے ۔ اُس خوش نصیب مخلوق ہونے کا بھرم رکھ لیجیۓ جس کے لیے خالقِ کائنات نے مذہب کا انتخاب کیا ورنہ یاد رکھیں طاقتور تو آپ سے چمپانزی بہت زیادہ تھا اور خیر سے سائنسی و تاریخی کتابوں مطابق آپکو ایک لاکھ نوے ہزار سالوں تک مارتا پیٹتا بھی رہا ہے ، آسمانوں پہ فرشتے آپ سے زیادہ پاکیزہ تھے پر پھر بھی انتخاب آپ کا کیا گیا لہٰذا اپنے رب کو راضی رکھیے اُسکا احسان ماننے کا اس سے بڑا اور کوئی ذریعہ نہیں کہ آپ مشکل وقت میں اُسکی پیدا کی گئی مخلوق کیلئے باعث رحمت بن جائیں !!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے