سُنو، قرنطینہ میں کتنے دن بیت گئے!!!

سنو! آج مجھے اس قرنطینہ میں آۓ جانے کتنے ہی روز بیت گئے، نہ کہیں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ نہ بارود کا دھواں، لیکن پھر بھی فٹ پاتھ پہ جگہ جگہ خون کے پھول کھلے ہیں۔۔۔

میرے کمرے میں بستر کے سرہانے جو ایک ٹوٹے ہوۓ نیلے شیشوں والی کھڑکی ہے، وہاں سے ساری گلی صاف دکھائی دیتی ہے،گلی کے نکڑ پہ اُگا بڑ کاایک درخت بھی،کچھ روز پہلے تک روزانہ ساری دوپہری بچے پیڑ کے ساۓ میں کھیلا کرتے تھے، جھولے جھولتے تھے، خوب اودھم مچاتے تھے۔۔۔۔۔پر اب بہت دن ہوۓ وہ بچے یہاں نہیں آتے، اور آج اس بڑ کے پیڑ کو میں نے اپنے بچوں کی قسمت پہ روتا دیکھا۔۔۔۔۔

تمہیں یاد ہوگا کہ اس پیڑ کے نیچے ایک بوڑھا داستان گو بھی بیٹھا کرتا تھا، ہاں ہاں وہی جس کے اردگرد تمام بچے دائرہ بنا کے بیٹھتے اور دو دو روپے دے کر اپنی من پسند داستانیں سنا کرتے تھے، اب وہ بوڑھا بھی چار دن سے دکھائی نہیں دے رہا، شاید کہ اس کے پاس کہنے کو کوئی داستان ہی نہیں رہی یا پھر شاید۔۔۔۔۔

یہاں قرنطینہ کے آنگن میں آج ایک بہت بڑا الاؤ دہکایا گیا تھا اور تمام لوگو کو حکم ہوا ہے کہ اپنی منہ زور چاہتیں، ریاکاری کی ساری خواہشات،اپنی انائیں، اور تمام غیر ضروری اضافی سامان جھونک دیں اس میں،۔۔۔

پر تمہیں تو پتہ ہے کہ میں کتنی چالاک ہوں، تمہارے ہمیشہ ساتھ بنھانے کے جو وعدے تھے نا، انھیں اپنی پھٹی اوڑھنی کے پلو کے ساتھ سی لیا ہے اور پتہ ہےکسی کو گمان بھی نہیں ہوا کیونکہ ان کی حالت بھی تو میری اوڑھنی جیسی ہی ہے ۔۔۔۔۔دونوں ایک دوجے کا گمشدہ حصہ ہی تو تھے، بالکل ہماری طرح ۔۔۔۔۔۔

یہاں دیوار کے دوسری طرف ایک جھیل بھی ہے، تمہیں یاد تو ہوگا کہ ایک ایسی ہی جھیل کے کنارے، پورے چاند کی راتوں میں، کنول کے تیرتے پھولوں کے ساتھ اپنا رشتہ پرویا تھا ہم نے،سنو! جانے کیوں یہاں اس جھیل پہ کنول نہیں کھلتے بلکہ ایک ناگوار سی بو پھیلی رہتی ہے اس کے چاروں طرف۔۔۔۔۔
ارے! تمہیں کیا لگا کہ میں کسی وبا کی شکار ہوں۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ میں تمہارے ہجر کے قرنطینہ کی قیدی ہوں، جس سے اب مجھے آزادی چاہیے۔۔۔

خیر۔۔۔۔تم تو اپنے وعدے سے مکر گئے پر مجھے تو تم جانتے ہی ہو، اتنی آسانی سے تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گی میں، بس تم عود سلگا کے رکھو میں پہنچ ہی رہی ہوں، کہہ دیا ہے میں نے کہ میری پھٹی اوڑھنی ہی اوڑھا کے بھیجیں مجھے کہ اس میں میری کُل متاع ٹنکی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ تمہارے وعدے، تمہاری باتیں ، تمہاری یادیں۔۔۔۔۔

بس اب یہاں اس لمحہ لمحہ خاک ہوتی بے وقعت کائنات کے طول و عرض پہ محیط قرنطینہ سے آزادی کا پروانہ ملتے ہی تم سے آ ملوں گی میں، جلد باز تو تم سدا کے تھے پر اتنی بھی کیا جلدی تھی؟؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے