مونیکا لیونسکی کی یہ تقریر دنیا بھر کے میڈیا کی اخلاقیات پر اتنا بڑا سوال ہے جس کا جواب میڈیا سے وابستہ کسی فرد کے پاس نہیں ہے۔ مونیکا ہماری موجودہ تاریخ کا وہ ’’مہذب‘‘ چہرہ ہے جس پر بدنامی کی کالک عالمی سطح پر ملی گئی اور اس کالک کو ملنے کے جملہ حقوق صرف اور صرف امریکی میڈیا کے پاس تھے۔ یہ خاتون گزشتہ دس سال سے خاموش تھی۔ اس نے اپنی دس سالہ خاموشی چند ماہ قبل توڑی اور ایک پر ہجوم ہال میں گفتگو کی جس کا عنوان تھا ’’شرمندگی کی قیمت (The Price of Shame)۔ تقریر کا ایک ایک لفظ نپا تلا اور معنی خیز تھا جب کہ حسن بیان اس کا سترہ سالہ کرب اور اذیت کا آئینہ دار اور درد سے نکھرا ہوا۔ اس نے آغاز اس فقرے سے کیا کہ آپ ایک ایسی عورت کو دیکھ رہے ہو جو گزشتہ دس سال سے خاموش تھی۔کچھ عرصہ پہلے جب میں نے اپنی خاموشی توڑی تو ایک شخص مجھ سے متاثر ہو کر میرے قریب ہوا۔ مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ اس نے مجھے ایک دفعہ یہ محسوس کرانے کی کوشش کی میں ایک بائیس سالہ نوجوان لڑکی ہوں۔ اس رات مجھے یہ احساس ہوا کہ میں شاید دنیا کی وہ واحد عورت ہوں جو چالیس سال سے زیادہ عمر کی ہونے کے باوجود بھی بائیس سالہ زندگی کی طرف لوٹنا نہیں چاہتی۔
اس کے بعد مونیکا نے پورے ہال سے کہا کہ وہ شخص ہاتھ کھڑا کرے جس نے بائیس سال کی عمر میں کوئی غلطی نہ کی ہو۔ پورا ہال ساکت و جامد بیٹھا رہا۔ اس نے کہا میں نے بھی بائیس سال کی عمر میں ایک غلطی کی تھی کہ میں اپنے باس کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ لیکن میری طرح کسی کا باس امریکا کا صدر نہیں تھا۔ زندگی ہمیشہ آپ کو حیران کرتی ہے لیکن دو سال بعد 1998ء میں میرے اس معاشقے کی بنیاد پر مجھے ایک عام سی لڑکی کے بجائے دنیا بھر کی رسوا ترین عورت میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اطلاعات ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ملتی تھیں لیکن میری اس رسوائی کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور لوگ آج بھی سوشل میڈیا، ای میلز اور تقاریر میں میرا ذکر کرتے ہیں۔ تقریباً بیالیس ریپ گانے ایسے ہیں جن میں میرا نام ذلت و رسوائی کے لیے لیا گیا ہے۔ مجھے بہت کم لوگ جانتے اور بہت زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔ دیکھنے والے جو میرے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں وہ ایک بری عورت کا ہے جسے وہ طرح طرح کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 1998ء میں میں نے اپنی عزت و وقار بلکہ سب کچھ کھو دیا۔ آئیں میں آپ کے سامنے ایک منظر پیش کرتی ہوں۔
ایک بغیر کھڑکیوں کے کمرہ جس میں خاص طور پر روشنی کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں مجھے میری ٹیلیفون پر کی جانے والی گفتگو کو سنوانے کے لیے بلایا گیا تھا جو خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھی۔ میری اور صدر بل کلنٹن کی گفتگو۔ یہ بیس گھنٹوں پر مشتمل تھی جس میں جذبات بھی تھے اور محبت بھی تھی۔ میرے سر پر سارا لمحہ ایک تلوار لٹکتی رہی۔ کچھ عرصے بعد یہ گفتگو کانگریس کے ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی۔ لیکن ذلت و رسوائی کا آغاز اس وقت ہوا جب چند ہفتوں بعد یہ گفتگو ٹیلیویژن پر چلا دی گئی اور اس کے مخصوص حصے آن لائن بھی میسر ہو گئے۔ یہ رسوائی ناقابل برداشت تھی۔ رسوائی اور ذلت کا یہ سفر اب دنیا بھر میں بہت سے غلطی کرنے والوں کے لیے اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بارہ سال بعد میری ماں نے مجھے فون پر بتایا کہ کس طرح ٹیلر کلیمنٹ نامی اٹھارہ سالہ لڑکے نے جارج واشنگٹن پل سے کود کر خودکشی کر لی تھی کیونکہ اس کی ایک خفیہ ویڈیو کسی نے بنائی اور پھر اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ ٹیلر تو مر گیا۔ میں، میری ماں اور آپ اس کے ساتھ بھی ہوں گے لیکن اس کے گھر والوں پر ذلت و رسوائی کا جو پہاڑ ٹوٹا ہو گا وہ ناقابل برداشت ہے۔
آج اس دنیا میں بہت سارے ایسے والدین ہیں جو اپنی اولادوں کو میڈیا کی اس ذلت و رسوائی سے نہیں بچا پاتے۔ وہ ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا اور انھیں چھپانا چاہتے ہیں۔ لیکن میڈیا انھیں ذلت کا لباس پہناتا رہتا ہے۔ آج دن بدن نیٹ کے ذریعے لوگوں کو خوفزدہ اور شرمندہ کرنے کا دور ہے۔ صرف ایک سال یعنی 2012ء سے 2013ء کے درمیان لوگوں کی فون کی گفتگو وغیرہ سے ہراساں کرنے میں 87 فیصد اضافہ ہوا۔ بلکہ ہالینڈ کی تحقیقات کے مطابق عام وجوہات کے بجائے نیٹ یا سوشل میڈیا سے ذلت اور سراسمیگی کے بعد خودکشیاں زیادہ ہونے لگی ہیں۔ آپ صرف ایک Chat سروس سے اندازہ لگائیں جو نوجوان استعمال کرتے ہیں۔ یہ گفتگو اور تصاویر تھوڑی دیر کے لیے محفوظ رکھتی جاتی ہیں‘ لیکن اچانک چوری ہو جاتی ہیں اور ایک لاکھ لوگوں کی ذاتی گفتگو مستقل طور پر سوشل میڈیا کے ذخیرے میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس سب کی ایک قیمت ہے جو صرف وہ ادا کرتا ہے جو رسوا ہو رہا ہوتا ہے۔ رسوائی کے دوران آپ سے کوئی ہمدردی نہیں کرتا۔ ایسے میں آپ کو کسی اجنبی کی تسلی بھی بہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن وہ میسر نہیں آتی۔ میں نے زندگی کے نازک ترین ایام ایسے گزارے ہیں جب ان الفاظ کو ترستی تھی جو میری غلطی پر مجھے معاف کر دینے والے ہوں۔ ہم آزادیٔ اظہار کے قائل ہیں لیکن کیا اس کی کوئی ذمے داری نہیں۔ کیا ہم ایسے شخص کے ساتھ ہمدردی اور تسلی کے لفظ میڈیا یا سوشل میڈیا پر نہیں بول سکتے جب وہ رسوا کیا جا رہا ہو۔
مونیکا لیونسکی کا معاشرہ‘ مغرب کا معاشرہ، ذمے دار میڈیا، جہاں ہتک عزت کا قانون اس قدر موثر مگر وہ کس قدر بے بس اور مجبور۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے کی ریحام خان ہو یا ایسی کوئی اور آپ اس کے ذاتی کرب اور دکھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا اس قدر ظالم، بے رحم اور جانبدار ہے کہ کسی دوسرے معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ریحام خان صرف اور صرف ایک اینکر پرسن رہتی اور عمران خان سے شادی نہ کرتی تو کس قدر عزت دار زندگی گزار رہی ہوتی۔کیا کبھی کوئی ٹی وی چینل اس کے پہلے خاوند کے گھر پہنچتا اور اس سے انٹرویو کرتا۔کرید کرید کر سوالات پوچھتا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ صرف ا ینکر ہوتی تو کیا کوئی ٹی وی چینل اس کی ڈانس والی ویڈیو اور مختصر لباس والی تصویریں دکھا کر تبصرے کرتا۔ اگر وہ ایک اینکر ہوتی، اس کی طلاق ہو جاتی تو کیا یہ خبر نہ ہوتی۔ لیکن شاید اس خبر کو کوئی بھی نشر نہ کرتا۔ اسے چھپایا جاتا، اسے ذاتی معاملہ سمجھا جاتا، کوئی یہ دعویٰ نہ کرتا کہ میں کسی قیمت پر خبر نہیں چھپا سکتا کیونکہ خبر بہت اہم ہوتی۔ کہا جاتا ہے سیاست دان عوامی شخصیات ہیں اس لیے ان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں۔کیا ہمارے اینکر اور کالم نگار عوامی شخصیات نہیں۔ ان کو سننے اور دیکھنے کے لیے لوگ ہزاروں سیاست دانوں سے زیادہ جمع ہوتے ہیں۔
یہ روزانہ لاکھوں لوگوں کے ذہن بدلتے ہیں، ان کی رائے بناتے ہیں۔ یہ عوامی شخصیات کیوں نہیں، ان کی ذاتی زندگی اور کردار کیوں لوگوں کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ یہی سوال جو مونیکا لیونسکی نے کیا تھا۔کیا کسی اینکر، کالم کالم نگار یا صحافی نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔ کیا ان سب کی ذاتی زندگی میں کہیں کوئی طوفان نہیں آیا، کیا ان کے معاشقے لوگوں کو دکھا کر انھیں ان کی اولادوں اور گھر والوں کے سامنے شرمندہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم سب میڈیا والوں کو رسوا کرنے کے لیے کسی اور گھر اور جھانکنے کے لیے کسی اور کا گریبان چاہیے۔ روزانہ ہمارے ٹیلیویژن چینلز پر غلط انگریزی اور بے سروپا اردو بولنے والے بڑے بڑے نیوز اینکر، اینکرز اور رپورٹر نظر نہیں آتے۔ لیکن ہم تمسخر اڑانے کے لیے اداکارہ میرا کو پکڑ لیتے ہیں اور پھر ہمارا دھندا چلنے لگتا ہے۔ صحافت میں یہ روش ٹیلی ویژن چینلز کے آنے کی وجہ سے عام نہیں ہوئی۔ یہ مدتوں سے چلی آ رہی ہے۔ آپ چھوٹے شہروں کے محدود اخبارات اور ہفت روزوں اور بڑے اخبارات کے نمایندوں کے بارے میں سوال کر کے دیکھیں، ہر کوئی ان سے خوفزدہ اور پریشان نظر آئے گا۔ اکثر چھوٹے جرائد جو بہت محدود تعداد میں چھپتے ہیں ان کا مقصد ہی رنگینی، سکینڈلزکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا ان سب کے بارے میں اخبارات کے ایڈیٹر، میڈیا کے کرتا دھرتا اور ٹیلی ویژن چینل پر چمکتے دمکتے اینکر نہیں جانتے۔ یہ سب جانتے ہیں۔
1980ء میں جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا تو ایک دن طلبہ کو لے کر مچھ جیل دکھانے گیا۔ وہاں پھانسی کی کوٹھریوں میں ایک بہت موٹا سا شخص پھانسی کی سزا کا منتظر تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک صحافی کو قتل کیا ہے۔ میرے ساتھ طلبہ اس سے طرح طرح کے سوال کر رہے تھے۔ ہر کسی کو پڑھا لکھا ہونے کے ناطے صحافی سے ہمدردی تھی۔ وہ جواب میں یہی کہتا رہا بس غلطی ہو گئی۔ پھر ایک دم پھٹ پڑا اور تیز تیز بولنے لگا۔ آپ کی بہن کے بارے میں کوئی ایک خبر بار بار لگائے، آپ اس کی صوبے سے باہر شادی کر دیں تاکہ وہ چین سے زندگی گزار سکے۔ کوئی وہ اخبار بھی اس کے سسرال پہنچا دے، وہ طلاق لے کر گھر آ بیٹھے اور خبر لگانے والا چائے خانے میں بیٹھ کر اسے اپنی فتح قرار دے تو آپ اس چھوٹے سے شہر کوئٹہ جس کی آبادی ایک لاکھ ہے جہاں آپ کی رسوائی کو سب جانتے ہیں تو ایسے میں آپ کیا کریں گے۔ طلبہ چپ رہے۔ وہ بولا آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ خودکشی کرتے ہیں اور میرے جیسے جاہل قتل کر کے پھانسی پر جھول جاتے ہیں۔ انجام دونوں صورت میں موت ہے اور وجہ صرف ایک ہے کہ صحافت میں کچھ لوگ خبر کو انسانوں کی عزت، توقیر اور احترام سے زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔