چوہے خوروں کو سود خوروں کے طعنے

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے جب میرے ملک کے بہترین لوگ دنیا کے اعلٰیٰ ترین دفاعی تجزیہ کار تھے، تب محض جنگ کا خدشہ تھا اور حالات یوں تھے کہ حالات کی سنگینی کو جانچے بنا ہم لوگ یہ طے کر رہے تھے کہ کون سا میزائل کہاں سے داغا جائے گا اور کتنے کلو کا وار ہیڈ لے کر جائے گا.

اگرچہ کہ اس بات کا ہماری فوج سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی یہ میزائل متواتر ہمارے گاؤں کے ہر چوک سے سارا دن کوئی نہ کوئی چلاتا رہتا تھا، ہمارے لوگوں میں یہ عجیب رویہ پایا جاتا ہے کہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہم ہی سب کچھ جانتے ہیں، دوسرا شخص تو گھر سے تیل لینے آیا ہے اور اتفاقاً دوسرا شخص بھی گھر سے یہ ہی سوچ کر چلتا ہے.

جنگ کے دنوں میں ہر بندہ بہترین دفاعی تجزیہ کار اور موقع ملنے پر جنرل تھا اور اتفاقاً آج کل کے دنوں میں الحمد للہ میرے گاؤں کیا یہاں اسلام آباد کے محلے میں بھی سب لوگ ڈاکٹر ہیں. ان کے پاس وہ علاج بھی موجود ہیں جو بیماریاں ابھی مارکیٹ میں نہیں آئیں خیر یہ تو پاکستان کی اپنی قسمت ہے کہ اسے اتنے ذہین لوگ ملے. اس بات پہ اس ملک و ملت کو اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہونا چاہیے

کورونا ایک وبائی مرض ہے لیکن ہائے ہماری معصومیت کہ ذرا سی اطلاع ملی کہ بندہ کورونا کی وجہ سے بیمار ہے اور ہم سارا محلہ ایک ہی باری میں عیادت کو پہنچ جاتا ہے کہ ہم بھی تبرک لے لیں، کہیں محروم نہ رہ جائیں اور پھر اسی پہ بس نہیں ہوتی، اس بات پہ بھی احساسِ تفاخر کہ میں نے مریض کو زیادہ قریب سے دیکھا. مجھے نہیں لگتا کہ اٹلی والوں کے لیے یہ بات اتنی پرکشش تھی لیکن وہ پھر بھی مر گئے انکی اپنی مرضی ہو سکتی ہے

ہمارے معاشرے کا المیہ بحث برائے بحث ہے ، ہم لوگ مسائل کا ادراک تو رکھتے ہیں لیکن حل کرنے کی ہمت نہیں کرتے اور اس بات پہ شکرگزار ہوں اپنے میڈیا کا جو وقتاً فوقتاً مسائل کو اجاگر کرکے مزید ذہنی مریض پیدا کر رہا ہے.

پہلے اخبار ہوتا تھا ، ماضی قریب کی باتیں جہاں پر ایک خبر صرف ایک ہی بار اختصار سے چھپتی تھی تکرار سے نہیں. آج کل دوڑ لگی ہوئی ہے، ریٹنگ کے چکر میں خبر پہلے دینے کے چکر میں بعض حقائق توڑ دیئے جاتے ہیں پھر مسلسل ان کو چلایا جاتا ہے ، ایک اچھا بھلا بندہ بندہ کہاں رہتا ہے. وہ دماغی طور پہ وحشی بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہم بحث برائے بحث تو کر سکتے ہیں بحث برائے اصلاح نہیں. تخریب کاری تو جنم لے سکتی ہے تعمیری سرگرمی کا وجود مشکل ہے. وہ جو پہلے کہاوت تھی کہ جیسی عوام ویسے حکمران اسکی اصلاح کی ضرورت ہے کہ جیسا میڈیا ویسے انسان.

آپ یورپ جیسے کھوکھلے معاشروں پر ہی نظر ڈال لیں تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے انسان کا لباس سے لباس تک کا سفر. لیکن نہیں ہم تو آزادی کے متوالے ہیں. ہمیں تو آزادی چاہیے عزت سے بھی معاشرت سے بھی اور عقل سے بھی. کہیں ہم انسان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں پھر لسانی بنیادوں پر پھر خاندانی بنیادوں پر اور پھر شروع سے شروع کرتے ہیں پہلے مذہبی بنیادوں پر پھر لسانی بنیادوں پر پھر خاندانوں میں اور اس کے بعد صرف افراد رہ گئے جن کو معاشرے میں ایک دوسرے سے کاٹنا باقی ہے، وہ بھی کامیابی سے کیا جارہا ہے. اس کے بعد ہم ترقی یافتہ اقوام سے بھی پانچ چھ منٹ آگے کھڑے ہوں گے یا شاید وہ خود ہی ہم سے اپنا وجود چھپاتی پھریں.

اسلام ایک مذہب ہے جس کا مقصد اجتماعیت تھا اور اسی میں معاشروں کی ترقی کا راز پنہاں تھا یہ تو ماضی کی بات ہے اس ماضی کی جس پہ ہمارے مولوی صاحب یا مذہبی طبقہ وقت نکال کر فخر کرتا ہے اور پھر جھاڑ پونچھ کر کچھ اضافے کے ساتھ اپنی اگلی نسل کے لیے محفوظ کر لیتا ہے اور وقتاً فوقتاً نکال کر دیکھ لیتا ہے کہ درست حالت میں ہے یا نہیں.

درندوں کی یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ جانوروں چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں،ان کی آپس کی لڑائیاں بہت کم ہوتی ہیں لیکن درندوں میں یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ وہ خون خرابہ تب ہی کرتے ہیں جب وہ بھوک سے تنگ ہوں، وحشت سنکی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوتی ہے جبکہ انسان اس بات سے آزاد ہے

ہمارے معاشرے میں آپ نے کوئی خبر سب سے پہلے سنی، آپ نکل آئے باہر اور عوام پہ اپنی قابلیت کا سکہ جمانے اور جہاں فریق دوئم بھی اگر اتفاقاً خبر سے فیض یاب ہو چکا ہے تو پھر دونوں حضرات کسی ہوٹل کا رخ کریں گے اگر شہر میں ہیں تو اور چائے منگوائی جائے گی پھر چائے میں وہ طوفان اٹھائے جائیں گے کہ بحر اوقیانوس بھی بغلیں جھانکنے لگے گا.

ایک دوسرے کو پھاڑنے کے چکر میں وہ حملے ہونگے کہ بعض اوقات ہوٹل انتظامیہ سمیت اس میں ڈوب جائے. ایک عام سی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اگلے بندے کو پچھاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر یہ ہی نہیں یہ مسئلہ آگے جا کر زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب آپ کسی غیر متعلقہ شخص کو اس میں کھینچنا شروع کر دیتے ہیں، اس کے احساسات کی پروا کیے بغیر اپنے علم و حکمت کے جھنڈے گاڑے چلے جاتے ہیں نتیجتاً آپ ایک اچھے انسان سے محروم ہو جاتے ہیں

اجتماعی رویوں سے متعلق قرآنِ مجید ایک بہترین کتاب تھی لیکن اتفاقاً ہم نے اس کو اس بلندی پہ رکھ چھوڑا ہے جہاں تک ہمارا ہاتھ کسی کی میت کے اوپر کھڑے ہو کر ہی پہنچتا ہے ، خیر بخشش کی ضرورت تو مردوں کو ہوتی ہے.

افراد میں اجتماعیت سے قوم بنتی ہے اور قوم سلطنت کی وارث ہوتی ہے اور سلطنت دشمنوں سے بھی لڑتی ہے اور بیماریوں سے بھی ، چین کی زندہ مثال سامنے ہے ، اگرچہ کہ افیمی قوم تھی ، شاندار ماضی کے بنا عمر میں بھی ہم سے چھوٹی ہے ، خیر جانے دیجیے وہ چوہے اور چمگادڑ کھاتے ہیں جو کہ حرام ہے اور ہم تو بس سود کھاتے ہیں، کیا کریں بھائی مجبوری ہے، گورنمنٹ چل ہی سود پہ رہی ہے.

ہماری ذمہ داری تو بس ٹیکس اور ووٹ دے کر ختم ہوگئی ، یہ جانے اور سمجھے بنا کہ ٹیکس کہاں جاتا ہے اور ووٹ کس کو دیتے ہیں 47 کے بعد سے تیر تلوار شیر اور اس بار بلا بھی آگیا لیکن فائدہ کیا ہوا؟؟؟

محض چہرے بدلے اور کردار؟؟؟ ہمیں ضرورت ہے کردار بدلنے کی خود کو بدلنے کی تاکہ معاشرہ بدل سکے. بحث برائے بحث سے بچیے تاکہ لوگ ہمارے شر سےبچ سکیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے