انہیں محروم رکھا گیا اور انہیں فریب دیا گیا۔ انہیں حق ہے کہ فریاد کریں مگر محبت ہی ان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ حیرت سے آدمی سوچتا ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ دولت بھی انہوں نے کھو دی؟
میرے سنگی ساتھی ملتان میں ہیں۔ میں لائبریری کے ٹھنڈے کمرے میں انہیں یاد کر رہا ہوں۔ آج کا کالم شاہ رکنِ عالمؒ کے مزار کے مقابل سنہری دھوپ میں لکھنا چاہیے تھا۔ اس خطے کی تاریخ پر لکھی جانے والی بہترین کتابوں میں سے ایک یہیں کہیں رکھی ہے۔ خواجہ غلام فریدؒ کا دیوان بھی۔ ارادہ تو یہ تھا کہ کچھ وقت ان کتابوں کے ساتھ بتایا جائے۔ خیال اور فکر کو بھٹکنے دیا جائے مگر افسوس کہ یہ نارسائی۔
یہ 1981ء کا موسمِ گرما تھا۔ اسلام آباد سے رحیم یار خان جاتے ہوئے ملتان میں رکا۔ شام ڈھلی تو تازہ ہوا کے لیے جی بے چین ہونے لگا۔ ”لوحِ ایام‘‘ کے مصنف مختار مسعود نے اپنی اولین کتاب ”آواز دوست‘‘ میں مارشل ٹیٹو کے دورۂ لاہور کا احوال رقم کیا ہے۔ عالمگیری مسجد کے بلند و بالا داخلی دروازے پر جب جوتوں پر خول چڑھانے کے لیے روکا گیا‘ تو ان کے چہرے پر بیزاری تھی مگر مسجد کے اندر داخل ہوئے تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
اس شام یہی میرے ساتھ ہوا۔ قلعۂ کہنہ کے ایک بنچ سے شاہ رکنِ عالمؒ کے مزار پہ نگاہ پڑی تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ یا رب! کوئی تعمیر ایسی دلآویز بھی ہو سکتی ہے؟ تب سے یہ تصویر دل میں آباد ہے۔ ع
اک عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ملتان سے روزنامہ دنیا کے اجرا کا فیصلہ ہوا تو برادرم نوید کاشف اور ارشاد عارف سے عرض کیا: اس سے قبل ملتان اور اردگرد کے شہروں میں گھومنا چاہیے۔ مکینوں سے ان کا حال پوچھنا چاہیے مگر افسوس! افتتاح کا دن آیا تو علالت نے آ لیا۔
موسمِ سرما کی ایک روشن دوپہر تھی۔ ایک کے بعد دوسرے کھجوروں کے جھنڈ اور دریائے سندھ کے جھاگ اڑاتے پانیوں کا نظارہ کرتے میانوالی کے ایک گائوں میں ہم اترے۔ عمران خان نے حسرت سے کہا: آغا جان نے مجھے سرائیکی نہ سکھائی۔ ”میرا بچپن رحیم یار خان کے دیہات میں گزرا ہے‘‘ میں نے اسے بتایا ”اللہ کا شکر ہے کہ روانی کے ساتھ سرائیکی بول سکتا ہوں‘‘۔ اس پر ایک قہقہہ اس نے لگایا اور راشد خان سے کہا: لو ایک اور دعویٰ۔ کچھ دیر کے بعد اسے خفیف ہونا تھا۔
دنیا اللہ کی ہے اور اس کے سب مکین اللہ کی مخلوق۔ شاعر نے یہ کہا تھا:
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں، غریبِ شہر نہیں
کچھ جگہوں سے مگر آدمی کو سوا الفت ہوا کرتی ہے۔ رحیم یار خان شہر اور اس سے تیس میل کے فاصلے پر لغاریوں کے گائوں رحیم آباد میں، زندگی کے صرف سات سال بسر ہوئے۔ بیس برس لاہور اور پچیس اسلام آباد میں مگر لاہور کے سوا اگر کہیں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے تو وہ یہی ملتان سے رحیم یار خان تک کا دیار ہے۔ اس کے میٹھے، محبوب مکین ”سائیں کِن ویندو‘‘… ”سائیں اِن ویندو‘‘۔
یہ الفت اور اُنس کہاں سے آیا۔ کس طرح اس نے دائمی طور پر قرار پکڑا؟ ہمارے سب شہر اور علاقے بٹ گئے۔ مہاجروں کے، پشتونوں، سندھیوں اور بلوچوں کے شہر۔ سب کے سب شاد و آباد رہیں۔ مسافروں کو اگر کہیں اجنبیت کا کبھی احساس نہیں ہوتا تو وہ پنجاب کا جنوب ہے یا شمال کے وہ خطے جو حکمرانوں کی نگاہ سے ہمیشہ اوجھل رہے۔ عصبیتوں کی سیاست نے تنگ نظری کو جنم دیا۔ عظیم الشان شہر چھوٹے ہو گئے:
تو نے بھی دیواریں کھینچیں
میں نے بھی دیواریں کھینچیں
لیکن اب یہ سوچ رہا ہوں
دونوں کس کے صید ہوئے ہیں
دیواروں میں قید ہوئے ہیں
یہ 1988ء میں نیوز روم کی ایک شام تھی۔ آغا خان فائونڈیشن کی ایک حیران کن رپورٹ ٹیلی پرنٹر پہ موصول ہوئی۔ عالمی ماہرینِ تعمیرات نے شاہ رکنِ عالم کے مزار کو دنیا کی حسین ترین عمارت قرار دیا ہے۔ تاج محل کا نمبر دوسرا ہے۔ مغلوں کی تعمیرات پہاڑوں کی طرح وسیع اور پُرشکوہ واقع ہوئی ہیں‘ مگر ان کے در و دیوار پہ ایسی عرق ریزی ہے، گویا سناروں نے بنائی ہوں۔ مغلوں کے اجداد کا انداز یہ نہ تھا۔ صاحبقراں امیر تیمور گورگانی ملکوں ملکوں کی دولت اور معمار سمیٹ کر وسطی ایشیا پہنچے۔ سمرقند کو اس نے دنیا کا سب سے شاندار شہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس عہد کی یادگاروں میں جلال تو بہت ہے، سنگی شکوہ اور رفعت و وجاہت بھی۔ جمال مگر برصغیر میں آن کر جاگا۔ اپنے نادر روزگار سفر نامہ ”شب جائے کہ من بودم‘‘ میں شورش کاشمیری نے حیرت کے ساتھ لکھا تھا: مغلوں کو اگر حجاز کا اقتدار نصیب ہوتا تو عالم کیسی خیرہ کن تعمیرات کا جلوہ دیکھتا۔ مغلوں کو نہ سہی، ان کے عم زاد عثمانی ترکوں کو نصیب ہوا۔ صدیوں تک یورپ ان کی ہیبت سے کانپتا رہا۔ سرزمینِ ترکی میں معجزے انہوں نے کر دکھائے۔ آج بھی وہ سیاحوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں۔ جس لائبریری میں یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، اس کی چھت میں ترکی کا بنا ایک چھوٹا سا فانوس آویزاں ہے۔ رنگوں کا ایسا امتزاج اور ڈیزائن کہ ایسی دلکشی خال خال ہوتی ہے۔ کلیم امام میری درخواست پر استنبول سے خاص طور پر لے کر آئے تھے۔
کاریگروں کی اپنی ایک جادوگری ہوتی ہے۔ مگر سرزمینوں کا بھی اپنا ایک افسوں ہے۔ ہر خواب ایک ماحول کا محتاج ہوتا ہے۔ دنیا کے بہترین قبرستان سرزمینِ سندھ کو نصیب ہونا تھے۔ وہ اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا جانتے ہیں۔ اپنے صوفیوں سے جیسی عقیدت جنوب کو عطا ہوئی، کسی اور کے نصیب میں نہیں۔ بہشتی نے خواجہ فریدالدین شکر گنج کے پائوں کو بوسہ دینا چاہا تو وہ کسمسائے اور یہ کہا: ان لوگوں کو سمجھاتے بجھاتے عمر بیت گئی مگر افسوس! سقّہ نے کہا: چھوڑو خواجہ، آپ کے ہاتھ پائوں سے کسی کو کیا واسطہ۔ ہم تو اس لیے آپ سے محبت کرتے ہیں کہ آپ کو اللہ سے واسطہ ہے۔
عامی ہی نہیں، شہنشاہ بھی یہاں اسی طرح جھکتے رہے۔ بلبن کا لشکر دیپال پور کے راستے دہلی سے ملتان روانہ تھا کہ خواجہ کے دیار پہنچا۔ لشکریوں نے عالی جناب کی خدمت میں حاضری دیے بغیر آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ ایک لاکھ سپاہی، سلامی دیتے، دعائیں لیتے ہوئے گزرے۔ سلطان بھی کہ تاریخ کی لوح پر آج بھی جس کا نام جگمگاتا ہے۔ جب تک بادشاہ اہلِ علم کے، درویشوں کے دروازے پر دستک دیتے رہے، اسلام کا پرچم بلند رہا۔ پھر وہ غلام گردشوں کی روشنیوں میں تاریکی کا رزق ہو گئے۔
لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں کچھ فرق ہے؟ ہاں! لاہور کے مکین زیادہ زندہ دل، زیادہ بشاش اور زیادہ مہمان نواز ہیں۔ یہ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کا فیض ہے، جن کے وجود سے برصغیر میں تصوف نے فروغ پایا۔ جن لوگوں کو سچے اور صاحبِ علم صوفیا کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا، وہ جانتے ہیں کہ انس و الفت وہیں ہے۔ دائمی انکسار، عاجزی اور مہمان نوازی ہے۔
جیسا کہ اقبالؔ نے کہا تھا: خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن۔ استخواں فروش، جو سیاسی مناصب کے لیے اپنے اجداد کو بیچتے ہیں۔ عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں ہیں۔ جنوب کے مکین مگر خوش بخت ہیں کہ راہِ سلوک کے مسافروں نے محبت کی جو دولت ان میں بانٹی تھی، اب تک انہوں نے بچا کر رکھی ہے۔
انہیں محروم رکھا گیا اور انہیں فریب دیا گیا۔ انہیں حق ہے کہ فریاد کریں مگر محبت ہی ان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ حیرت سے آدمی سوچتا ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ دولت بھی انہوں نے کھو دی؟
بشکریہ:روزنامہ دنیا