عمومی تاثر تو یہی ہے کہ ہم پاکستانی جہنم کے اس گڑھے میں ہیں، جس کے باہر کوئی نگران بھی موجود نہیں، جب کوئی اس گڑھے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اس کی ٹانگیں کھینچ کر واپس نیچے گرا لیتے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس کے زیر اہتما م فرخ شہباز وڑائچ کی مرتب کی ہوئی نوجوان کالم نویسوں کے کالموں کی کتاب کالم پوائنٹ پر تقریب کے دوران مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دوسروں کو آگے بڑھنے کے لئے سیڑھی فراہم کرتے اور اپنے سے نیچے لوگوں کو اوپر آنے کے لئے ہاتھ کا سہارا فراہم کرتے ہیں ۔اک روایتی سوچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو آگے بڑھنے کاموقع فراہم کیا جارہا ہے کہیں کل یہ سینئر اور معروف کالم نگاروں کی جگہ پر نہ جا کے بیٹھ جائیں ۔ ریاض مجید نے اسی بارے توکہا ہے کہ ’’اپنی راہ مسدود کردے گا یہی بڑھتا ہجوم، یہ نہ سوچا ہر کسی کو راستہ دیتے ہوئے‘‘۔
یہ خوف بے جا تو نہیں،نشاندہی کی گئی کہ ہمارے نوجوان کالم نگاروں کی تحریروں میں ادب کی چاشنی اور مواد بارے تحقیق کی کمی ہو سکتی ہے، میں نے کتاب اٹھائی اورمنتخب کالموں کا دوبارہ جائزہ لینا شروع کر دیا، مَیں نے جاناکہ بعض تحریریں صرف اس وجہ سے تاریخی اور یاد گار قرار نہیں دی جا سکتیں کہ انہیں لکھنے والے نام بڑے اور مشہور نہیں ہیں۔
دوسری طرف میں نے بہت سارے بڑے ناموں کے بہت سارے ایسے کالم دیکھے ہیں جن کا ادبی، تحقیقاتی اور معاشرتی مقام تو اک طرف رہا، ان میں تحریر اور گفت گو کی عمومی تمیز تک نہیں ملتی۔ ایک دو کالم نگاروں بارے کیوں کہئے ، ہمارے تو بہت سارے کالم نگار ہیں، ہاں، ان کے اس فن کی گواہی نہ دینا زیادتی ہو گی کہ وہ اپنے مخالفین کو گالی دینے کے نت نئے انداز ایجاد کرتے ہیں، وہ مکھی بن کے نئے زخم ڈھونڈتے اور ا ن پر بھنبھناتے ہیں،
یہ بھی کمال ہے کہ بہت سارے دو جمع دو کو چار کی بجائے تین، پانچ ،سات سمیت کچھ بھی ثابت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔میری نظر میں توکالم نگاری صحافت کی اگلی صنف ہے جو اپنے لئے صحافتی تجربے کے ساتھ ساتھ تحریر کی مہارت کو بھی لازم قراردیتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کرنٹ افئیرز کے پروگراموں کی اینکرنگ کا تعلق بھی شوبز سے نہیں بلکہ صرف اور صرف جرنلزم سے ہے، یہاں آپ کا صحافتی تجربہ ، آپ کی شخصیت اور گفتگو کرنے کی صلاحیت اکٹھے ہو کر آپ کو ایک اینکر بناتے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ اخبارات میں کالم اور ٹی وی چینلوں پر اینکرز پیراشوٹس کے ذریعے براہ راست ادارتی صفحات اور کرنٹ افئیرز کی سلاٹس پر نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے اپنے مقاصد اور ایجنڈے ہوتے ہیں، بعض کے ذریعے میڈیا ہاوسز کے مالکان حکومت سے اپنے کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ پی آر بہتر کرنے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
ایسے کالم نویس بھی ہیں جن کی بیٹ، رپورٹرز کی طرح پولیس اور سیکیورٹی کے دیگر ادارے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک بڑی شخصیت حال ہی میں جب امریکہ پہنچی تو وہاں اس نے امریکی فوجیوں کو اپنے بوٹ خود پالش کرتے ہوئے دیکھا، وہ شخصیت حیران ہوئی اور پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں ٹی وی کے اینکرز اور تجزیہ کار نہیں ہوتے ۔ہمارے جیسے کنفیوژ معاشروں میں جرنلزم کہیں پیچھے اور بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ کالم نگار ، کالم نگار نہیں رہتے کبھی وکیل اور کبھی کمیشن ایجنٹ بھی بن جاتے ہیں۔
کالم نگار، کالموں کورائے عامہ کی تشکیل سے کہیں زیادہ پبلک ریلیشننگ کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلیل یہ دی جاسکتی ہے کہ اگر ایک صحافی، اینکر اور کالم نگار اپنے رابطوں کو وسیع نہیں کرے گا تواس کے پاس اطلاعات کیسے پہنچیں گی مگر خبروں، کالموں اور پروگراموں کو بہرحال اپنے ذاتی مفادات اور نظریات کے فرو غ کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں جس دھڑے کے لئے حمایت بڑھتی چلی جائے گی ان کی نظر میں آپ کی اہمیت کم ہوتی چلی جائے گی، وہ آپ کو اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سے زیادہ نہیں سمجھے گا۔
انسان ہمیشہ عزت دینے والے سے کہیں زیادہ گالی دینے والے کو اہمیت دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ روزانہ کسی نہ کسی کی پگڑی اچھالنے اورپتلون اتارنے والے کالم نویس اور اینکر زیادہ بڑے سمجھے جاتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما اس شخصیت کے گھر ڈھٹائی کے ساتھ ان کے ساتھ فوٹو شوٹ کرواتے رہے جو انہیں اپنی تحریروں میں خواجہ سرا قرار دیتی رہی ہے۔
درست کہا سلمان عابد نے کہ ہم اپنے مخالف کا نکتہ نظر سننے اور پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے،اس کا احترام کرنا اور اسے تسلیم کرنا تو آگے کی بات ہے ۔ اس سے بھی بڑی بات جناب روف طاہر نے کی، ان کا کہنا تھا کہ ہماری کمٹ منٹ آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہونی چاہئے۔ سیاستدانوں کو تنقید کانشانہ ضرور بنایا جائے، مگر اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے کہ اس کے نتیجے میں دُنیا بھر میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے تسلیم شدہ اقدار اور نظام کے خلاف رائے عامہ ہموار نہ ہو۔ذاتی واہ واہ کے لئے اجتماعی شعور اور دانش کے خلاف بات کرنے اگرچہ ہر دورکے ہی کالمانہ فیشن میں ’’ان‘‘ رہی ہے مگر ایک صحافی، کالم نگار اور اینکرکی قومی اور سیاسی معاملات پر سوچ کو’’ تھڑا اپروچ‘‘ سے بہتر ہونا چاہئے۔
سیانوں نے پہلے کہا تھاکہ خالی برتن زیادہ بجتا ہے مگر جب ہر کوئی دانش ور ہوتو دلیل دی جاتی ہے کہ بولتا وہی ہے، جس کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔کالم کسی خبر کی طرح غیر جانبدار نہیں ہوتا،ہرکالم نگار کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہوتی ہیں، بس وقت اور ضرورت کے ساتھ ساتھ یہ بدلتی جاتی ہیں۔ کسی کالم نگار سے اختلاف کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، جب ایک قاتل اور ڈاکو بھی اپنے اعمال کا جواز دیتا ہے تو پھر کالم نگاروں نے کون سی کسی کی بھینس چرائی ہوتی ہے،ہم سب اپنی کہی گئی باتوں اور کی گئی حرکتوں کے جواز تلا ش کر لیتے ہیں۔ کالم کسی لیکچر اور مضمون سے بھی مختلف ہونا چاہئے، مگر یہ مختلف رہ نہیں پاتاکیونکہ بہت سارے پروفیسرز اور ریسرچرز بھی کالم نگار بن چکے ہیں۔
کالم کواپنے انداز میں دلچسپ اور ہلکا پھلکا ہونا چاہئے، مگریہ عمومی طور اسی طرح بھاری بھرکم ہوجاتا ہے جس طرح آج کا یہ کالم ہو گیا ہے ۔ بالکل اسی طرح، جب اپنے تئیں میرے جیسے کسی سینئر پلیئر نے جونیئرز کو برا کھیلتے ہوئے دیکھا تو فورا پیڈز باندھ کے اوربلا پکڑ کے وکٹ پر آ گیا، چیخا ، بال کرواؤ اور مَیں بتاتا ہوں کہ کھیلا کیسے جاتا ہے، چھ گیندوں میں سے جب وہ تین پر آوٹ ہوا تو دوبارہ چیخ کر بولا،ہاں ہاں، میں تمہیں یہی سکھاناچاہتا تھا کہ اس طرح بالکل نہیں کھیلنا۔ اگر آپ اس کالم کو پڑھتے پڑھتے یہاں تک آ پہنچے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ کالم پی ایف یو سی کے دوستوں سے محض پی آر کے لئے لکھا گیا ہے ورنہ نوجوان کالم نگار کب میری رہنمائی کے خواہاں ہیں۔
میرا سوشل میڈیامجھے بتاتا ہے کہ کالم نگار تو اک طرف رہے، وہاں میرے دوستوں میں شامل پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ، سب کے سب مجھ سے ڈھیروں عقل مند ،کہیں زیادہ تجربہ کاراور کہیں بہتر صاحب الرائے ہیں، وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے میرے کالموں میں خرابیاں نکالتے ، میری سوچ اورفکر کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔دریاکو کوزے میں بند کرتے ہوئے بس اتنا جان لیجئے کہ جیسابھرتی کا کالم آج آپ نے پڑھا ہے ایک اچھا کالم ہرگزایسا نہیں ہونا چاہئے ۔
بشکریہ:روزنامہ پاکستان