اخبار بینی صحت کے لیے اچھی ہے

ایک مسلسل حسنِ اتفاق ہے کہ جب جب بھی پاکستان میں قیاس آرائیاں زور پکڑتی ہیں کہ سیاسی حکومت اور فوجی سٹیبلشمنٹ کے مابین ترجیحات اور حکمتِ عملی کا اختلاف پیدا ہو رہا ہے مذہبی سیاسی جماعتیں اور گروہ سیاسی حکومت کو نظریاتی ذمہ داریاں یاد دلانے لگتے ہیں۔ جیسے مذہبی سیاسی و جہادی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل نے اسلام آباد میں اپنے تازہ اجلاس میں نواز شریف حکومت کو یاد دلایا کہ پاکستان کو ایک لبرل راستے پر ڈالنے کی مزاحمت کی جائے گی۔ تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ملی کونسل کے نزدیک لبرل سے کیا مراد ہے؟ پاکستان میں جو آئین اور پارلیمانی نظام نافذ ہے وہ بھی لبرل ڈیموکریسی کے تصور سے پیدا ہوا۔ تحریر و تقریر اور سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی آزادی بھی ایک بنیادی لبرل قدر ہے۔ آئین میں شہریوں کے عقائد کے احترام اور اقلیتوں کے بنیادی مذہبی و سماجی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی ایک لبرل تصور ہے اور مذہبی و نسلی منافرت پھیلانے کو جرم قرار دینے کا تصور بھی لبرل ہے۔ جناح صاحب کی 11 اگست1947 کی تقریر بھی ایک لبرل مسلمان ریاست میں ممکنہ مذہبی و نسلی رواداری کا خاکہ ہے۔

ان معنوں میں اگر کسی پاکستانی وزیرِ اعظم کے منہ سے نکل گیا کہ ملک کا مستقبل ایک لبرل اور جمہوری نظام سے وابستہ ہے تو اس قدر سیخ پائی کیوں؟

ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے فرمایا کہ جس شخص ( نواز شریف ) نے شریعت بل متعارف کروایا وہی شخص اب سیکولر ازم کی باتیں کر رہا ہے۔ چنانچہ نظریاتی جماعتیں کلمے کی حرمت کے تحفظ کے لیے متحد ہو جائیں۔ بہتر ہوتا حافظ صاحب یہ بھی بتا دیتے کہ نواز شریف نے اپنی کس تقریر، بیان یا پریس کانفرنس میں سیکولرازم کی اصطلاح استعمال کی؟ اور کلمے کو 97 فیصد مسلمان آبادی کے دیس میں بھٹو کے اسلامی سوشلزم کے بعد اب کون سا سنگین خطرہ درپیش ہے؟ اگر سیکولر ازم کا مطلب سوائے اس کے کچھ اور ہے کہ ’اپنے عقیدے پر قائم رہو اور دوسرے کے عقیدے کو مت چھیڑو‘ تو پھر سیکولر ازم یقیناً ایک مضر نظریہ ہے اور اس کی مخالفت بالکل جائز ہے۔

اگر اس بات پر پاکستانیوں کا اجماع ہے کہ پاکستان نفاذِ شریعت کے نام پر بنا تھا تو اس ملک میں یقیناً کسی بھی طرح کے ازم کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ مگر اسی اصول کے تحت جب جب بھی راشٹریہ سیوک سنگھ ہندو اکثریتی بھارت میں رام راج کے نفاذ کا جھنڈا بلند کرے تو ملی یکجہتی کونسل اتر پردیش میں قائم مرکزی دارالعلوم دیوبند اور جماعتِ اسلامی ہند سے بھی درخواست کرے کہ آئندہ ایسی اپیلوں سے سختی سے پرہیز کیا جاوے کہ بھارتی مسلمان آر ایس ایس کا راستہ روکنے کے لیے سیکولر جماعتوں کا بھرپور ساتھ دیں۔

بھارت کو چھوڑیے۔ لبرل ازم اور سیکولر ازم اگر اتنا ہی خطرناک ہے تو پھر برادر مسلمان ملک ترکی کو علماِ کرام کس نظریاتی خانے میں فٹ کرنا پسند فرمائیں گے اور حکومتِ پاکستان کو ترکی سے ہوشیار رہنے کے لیے کیا مشورہ دیں گے؟

اجلاس نے ممتاز قادری کی سزائے موت برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر اسلامی قرار دیا۔ جانے یہ تبصرہ توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں۔ جانے ملی یکجہتی کونسل میں شامل جماعتیں اس طرح کے ’غیر اسلامی فیصلے‘ کرنے والی عدالت سے آئندہ کسی بھی مقدمے میں انصاف طلب کریں گی بھی کہ نہیں؟ اجلاس نے دنیا بھر بالخصوص بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے دو رہنماؤں کی پھانسی کی شدید مذمت کی۔ شاید وقت کی کمی کے سبب دولتِ اسلامیہ کے بیروت اور پیرس حملوں، نائجیریائی شہریوں پر بوکو حرام کے بڑھتے ہوئے خود کش حملوں اور مالی میں القاعدہ جنگجوؤں کی جانب سے ایک ہوٹل میں اجنبیوں کو یرغمال بنانے کی مذمت نہ ہو پائی۔

وقت ملتا تو یقیناً یہ اجلاس شامی خانہ بربادوں کو پناہ دینے کی بابت مسلم امہ کی عمومی بے حسی اور 31 امریکی ریاستوں کے گورنروں کی جانب سے شامی پناہ گزینوں کو لینے سے انکار کی مذمت بھی کرتا اور جرمنی، کینیڈا اور فرانس جیسے غیر مسلم لبرل سیکولر ممالک کے اس اعلان کو بھی سراہتا کہ دولتِ اسلامیہ کے حملوں کے باوجود مسلمان شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی پالیسی جاری رہے گی۔

اگر اجلاس ذرا اور طول کھینچتا تو ملی یکجہتی کونسل شاید پیرس حملوں کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ میں کچھ مساجد پر حملوں کا نوٹس بھی لیتی اور ریاست ٹیکساس کے قصبے فلوگرویل کے اس سات سالہ غیر مسلم بچے جیک سوانسن کے جذبے کو بھی سراہتی جس نے اپنے محلے کی مسجد میں توڑ پھوڑ کی خبر سننے کے بعد مسجد کی صفائی کے لیے امام صاحب کو گلک تھما دی جس میں 20 ڈالر ریزگاری جمع کی تھی۔ امام مسجد نے جیک کو گلے لگاتے ہوئے بھرائی آواز میں کہا جیک کے 20 ڈالر ہمارے لیے20 لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ ہیں۔ علاقے کی مسلم کمیونٹی نے اگلے دن جیک کے گھر پہنچ کے اسے تحفوں اور پھولوں سے لاد دیا۔ ہم ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ کے استعمال کا مشورہ تو نہیں دیں گے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے نظریاتی تحفظ کی مصروفیت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ملکی و غیر ملکی اخبارات بھی وقتاً فوقتاً پڑھا کرے ۔ ذات کے پنجرے سے نکل کے تازہ ہوا کھانے سے صحت کے ساتھ ساتھ خیالات بھی تازہ ہوتے رہتے ہیں

بشکریہ :بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے