مفتی منیب الرحمان سعودی عرب میں ہوتے تو آج ویاں طواف ہو رہا ہوتا

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ روز قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد لاک ڈاؤن میں دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کے دوران باجماعت نماز، تراویح، نماز جمعہ اور اعتکاف سے متلعق فیصلہ 18 اپریل کو کیا جائے گا۔

تاہم چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان نے حکومتی ارکان اور دیگر علما سے مشاورت سے پہلے ہی ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ مساجد میں لاک ڈاؤن نہیں ہو گا اور باجماعت نماز کا سلسلہ جاری رہے گا۔

مفتی منیب کے اس اعلان کے بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی جس میں کچھ صارفین مفتی منیب کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے تو کچھ نے ان کی حکمت سے اتفاق کیا۔

گذشتہ روز ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #Tarawee اور #Mullah #WeStandWith_MuftiMuneeb ٹرینڈ کرتے نظر آئے۔

فیصل محمد نامی صارف نے مفتی منیب کی جلد بازی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’ابھی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ مساجد میں تعداد بڑھانے کیلئے علما کرام سے مشاورت کر کے انھیں بڑھایا جائے گا، لیکن مفتی منیب الرحمن سے 10 منٹ بھی صبر نہیں ہوا۔

انھوں نے از خود مساجد پر لاک ڈاون کی پالیسی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ علما حضرات میں افہام و تفہیم کے عنصر کا ختم ہونا قابل تشویش ہے۔‘

کئی ٹوئٹر صارفین نے خانہ کعبہ کی حالیہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر سعودی عرب میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں باجماعت نماز پر پابندی عائد ہو سکتی ہے تو پاکستان کی مساجد میں کیوں نہیں۔

لیکن جہاں مفتنی منیب کو لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا وہیں ٹوئٹر صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے اعلان سے اتفاق بھی کیا۔

محمد منیب نے مفتی منیب پر تنقید کرنے والوں سے سوال کیا: ‘دفاتر میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ جا سکتے ہیں تو مساجد میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ کیوں نہیں جاسکتے؟‘

جبکہ سعودی عرب کی مثال دینے والوں کو جواب دیتے ہوئے صارف حسیب اسلم کا کہنا تھا کہ ہم اسلام کی پیروی کرتے ہیں نہ کہ سعودی حکومت کی۔ اس لیے مجھے صرف اسلام کا حوالہ دیں۔

جبکہ عثمان علی نے مفتی منیب کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا: ‘یقین کرو اگر سعودی عرب میں مفتی منیب الرحمان جیسا بندہ ہوتا تو آج مکہ مکرمہ کا طواف بھی ہو رہا ہوتا۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے