شکریہ عمران خان

عمران خان زمینی حقیقتوں کو تو تبدیل نہ کر سکے لیکن ان کے دو سالہ دور اقتدار نے اس قوم کی ان نفسیاتی اور فکری گرہوں کو کھول دیا ہے، عام حالات میں جنہیں کھلنے میں مزید کتنے ہی عشرے درکار ہوتے۔

کپتان کی تبدیلی کے اس رومان میں، خواب تو پامال ہوئے لیکن ہم ہموار ہو گئے۔ وہم جس کو محیط سمجھا تھا، وہ تبدیلی اتنی سراب بھی نہیں۔ عمران خان کو اقتدار نہ ملتا تو لاشعور میں پھیلی ان غلط فہمیوں کو ہم آج بھی پہلی محبت کی طرح دل میں بسائے ہوتے۔ عمران خان نے ہمارے وجود سے لپٹی ان غلط فہمیوں کو اتار کر پھینک دیا ہے۔ اس چارہ گری پر ہم کپتان اور اس کی تبدیلی دونوں کے مقروض ہیں۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے گمان کیا جا رہا تھا کہ اوپر قیادت ایماندار ہو تو نیچے سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے، چنانچہ ایک خواہش نے جنم لیا کہ کوئی مسیحا آ جائے جو ایماندار ہو، جو کرپٹ نہ ہو، جس کا دامن صاف ہو اور پھر پلک جھپکنے میں ہم اجل رسیدہ لوگوں کے سب دکھ درد ختم ہو جائیں۔ معلوم یہ ہوا یہ ہماری سادہ لوحی کے سوا کچھ نہ تھا۔ دنیا عالم اسباب ہے، یہاں ایسا کوئی سپر مین اور رجل رشید نہیں جو اقتدار میں آکر سب کچھ ٹھیک کر دے۔

ثابت ہوا کہ تبدیلی کسی ایک دیانت دار ہیرو کے اقتدار میں آنے کا نام نہیں ہے، تبدیلی محنت، ویژن، بصیرت اور منصوبہ بندی جیسے لوازمات کی محتاج ہے۔ یہ زاد راہ پاس نہ ہو تو کوئی ہیرو یا ٹارزن کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ شخصی وجاہت نہیں، یہ فرد عمل ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے۔

عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے دیوار دل سے یہ خوش گمانی آ لگی تھی کہ عمران خان سیاست کے روایتی کرداروں کی نفی کا نام ہے۔ وہ آئے گا تو ہمیں پیشہ ور سیاست دانوں سے نجات مل جائے گی۔ اقتدار کے دو موسموں میں ہی معلوم ہو گیا کہ یہ خام خیالی تھی۔ ثابت ہوا، اس ملک میں سیاست پر چند گھرانوں کی اجارہ داری ہے اور انقلاب آئے یا تبدیلی، اقتدار انہی گھرانوں کے پاس رہتا ہے۔ عمران خان بھی اقتدار تک تبھی پہنچ پائے جب ان گھرانوں کو ساتھ ملایا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ کی، پرویز مشرف کا اقتدار ہو یا عمران خان کا، حکومت انہی سیاسی خانوادوں کی بیساکھی پکڑ کر چلتی ہے۔ بس ان کے اقتدار کا عنوان بدلتا رہتا ہے۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا ملک کی معاشی تباہی کی ذمہ داری نواز شریف اور زرداری کی کرپشن ہے۔ محیر العقل اعدادوشمار دیے گئے کہ روزانہ اتنے ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے جسے روک دیا جائے تو ملک کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ ہمیں بتایا گیا سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے اربوں ڈالر پڑے ہیں جنہیں عمران خان واپس لائیں گے اور فلاں فلاں کے منہ پر دے ماریں گے۔ ملک قدموں پر کھڑا ہو جائے گا۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔

اب عمران خان اقتدار میں ہیں اور روزانہ اربوں کی کرپشن بھی نہیں ہوتی لیکن معیشت پھر بھی بہتر نہیں ہو پا رہی۔ حکومتی عمائدین خود بتا رہے ہیں کہ سوئس بنکوں میں دو سو ارب روپے والی بات محض ایک کہانی تھی جو غلط فہمی کی بنیاد پر سنائی جاتی رہی۔ معلوم یہ ہوا معاشی تباہی کی وجہ محض یہ طوطا کہانی نہ تھی کہ ہر روز اربوں لوٹ کر باہر لے جائے جا رہے ہیں بلکہ اس کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں جو اب بعد از خرابی بسیار، خود عمران خان صاحب کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہیں۔

عمران خان احتساب کا نعرہ لے کر اٹھے تھے اور خیال تھا وہ اقتدار میں آئیں گے تو حقیقی احتساب کی بنیاد رکھ دیں گے۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ بی آر ٹی کے معاملے پر وزیرِ اعلیٰ نے خود ایک تحقیقی رپورٹ تیار کرائی اور اسے گناہ کی طرح چھپا لیا گیا۔

فارن فنڈنگ کیس آیا تو نہ صرف الیکشن کمیشن میں غلط بیانی کی گئی بلکہ اپنے اکاؤنٹس کی سکروٹنی سے بچنے کے لیے ہائی کورٹ میں پوری 11 پیٹیشنز دائر کی گئیں۔ ایک یا دو نہیں پورے 15 اکاؤنٹس کو الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا گیا۔ الیکشن کمیشن نے 24 مرتبہ اکاؤنٹس کی تفصیلات تحریری طور پر طلب کیں مگر یہ تفصیلات فراہم نہ کی گئیں یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو سٹیٹ بنک کو خط لکھ کر ریکارڈ منگوانا پڑا۔ وزرا الزامات کی زد میں آئے تو قلمدان بدل دیے گئے، کل جو وزرا الزامات کی زد میں آ کر مستعفی ہوئے وہ دوبارہ حلف اٹھا رہے ہیں۔

احتساب اتنا معتبر تو یہاں کبھی بھی نہ تھا لیکن یہ عمران خان کا دور اقتدار ہے جس میں آخری درجے میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہاں احتساب اس کا نہیں ہوتا جو کرپٹ ہو بلکہ جس کا احتساب کرنا ہو اس کی کرپشن تلاش کر لی جاتی ہے۔ احتساب ہمارے سماج کی ایک بہت بڑی نفسیاتی گرہ تھی۔ ’پہلے احتساب پھر انتخاب‘ کی تیغ کے سائے میں پل کر جوان ہونے والی ہماری نسل کا اس لفظ سے ایک خاص رومان وابستہ تھا۔

عمران خان نے یہ نفسیاتی گرہ کھول کراس رومان کو بیچ چوراہے میں لا کر رکھ دیا۔ کیا یہ کوئی معمولی کام ہے؟

عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل یہ حسن ظن بھی تھا کہ تحریک انصاف کے وابستگان تعلیم یافتہ ہیں اور اخلاقی اعتبار سے دوسروں سے ممتاز ہیں۔ گمان تھا کہ یہ باشعور کارکنان اپنی حکومت کا لمحہ لمحہ ناقدانہ جائزہ لیتے رہیں گے اور اسے راہ راست پر رکھیں گے۔ معلوم ہوا یہ بھی خام خیالی تھی۔ یہ بھی خاکِ بسمل گاہِ عشق ہی نکلے جن کے ہاں حق اور باطل کا پیمانہ اب صرف عمران خان کی ذات ہے۔

خواب پامال ہونے کا دکھ تو ہوتا ہے لیکن سماج تب ہی ہموار ہوتاہے جب اس کے مغالطے دور ہو جائیں اور وہ رومان کی بھول بھلیوں سے نکل کر حقائق کا سامنا کر سکے۔ عمران خان نے تھوڑے ہی عرصے میں یہ مغالطے دور کر کے سماج کو ہموار کر دیاہے۔ یہی تبدیلی ہے اور اس تبدیلی پر ہم عمران خان کے شکر گزار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے