میں نے بچپن کے ابتدائی سالوں میں تختی لکھی ہے ۔ تختی دو طرح کی ہوتی تھی۔ ایک پر کالک لگا کر اسے رگڑ کر چمکایا جاتا تھا جبکہ دوسری پر مٹی کی گاچی استعمال ہوتی تھی ۔ میں نے دونوں طرح کی تختیاں استعمال کی ہیں ۔
امی کہتی تھیں تختی لکھنے سے آدمی خوش نویس بن جاتا ہے ۔ تختی سی جڑی کچھ شرارتیں بھی یاد آتی ہیں ۔ مجھے یاد ہے امی مجھے چچا کے ساتھ اسکول بھیج کر خود اپنے اسکول چلی جاتیں تھیں ۔ میں چچا کے پیچھے ذرا فاصلے پر چلتا تھا ۔ جہاں موقع ملتا تو سٹک جاتا ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ چچا نے کبھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا ۔ شاید وہ اپنے خیالوں میں گُم چلتے جاتے تھے ۔
میں جب اسکول سے واپس آتا تو اپنی حاضری کے ثبوت کے لیے امی کو تحتی دکھاتا جو میرے بنائے ہوئے آڑھے ترچے لفظوں سے سجی ہوتی تھی ۔ امی مان لیتیں کہ واقعی میں اسکول گیا تھا ۔
ہوتا یہ تھا کہ میں جہاں بھی ہوتا تختی بہرحال لکھ لیا کرتا تھا ۔ پھر ایک دن میں پکڑا گیا ۔شاید امی نے پٹائی بھی کی ہو ۔ مجھے یاد نہیں ۔اس کے بعد کاپیوں کا زمانہ آیا ۔اوپر ٹیچر سطر لکھ کر دیتی/دیتا تھا اور نیچے کی سطور میں ہم پنسل گھسیٹتے تھے ۔
اسکول میں ایک دوسرے کی تختیاں لڑا کر ہم ان کی مضبوطی بھی چیک کیا کرتے تھے ۔ امتحانوں میں گتـے بھی لڑائے جاتے تھے ۔ یہ سب پرائمری کے ابتدائی دو تین سالوں کی کہانیاں ہیں ۔ اس کے بعد میں نے تختی نہیں دیکھی اور نی تختی لکھنے والے ۔چھوٹے بھائیوں کو بھی کاپیاں ہی لکھتے دیکھا ہے ۔
آج صبح واک سے واپسی پر اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک بابا جی کو دیکھا ، جو اپنے سامنے تختیاں رکھے بیٹھے تھے، جن پر پنسل سے خوش خط عبارت لکھی ہوئی تھی ۔
سامنےاسکول ہے اس لیے میں نے بابا سے پوچھا کہ کیا آپ یہ تختیاں بیچتے ہیں؟ عمر رسیدہ خطاط نے جواب دیا نہیں میں ان تختیوں پر پنسل سے لکھتا ہوں اور بچے اس پر سیاسی سے قلم پھیرتے ہیں ۔
مزید کریدنے پر معلوم ہوا کہ سہہ پہر میں بزرگ خطاط کے پاس کچھ بچے باقاعدہ کلاس لینے آتے ہیں ۔ مدتوں بعد تختی لکھنے کی اس روایت کو زندہ دیکھ کردل خوش ہو گیا ۔ لاہور جیسے شہر میں بھی اب بھی ایسے والدین موجود ہیں جو اپنے بچوں کو اس خوبصورت تجربے سے گزار رہے ہیں ۔