کورونا وائرس ،سوشل میڈیا، مذہبی طبقہ اور مولانا فضل الرحمان

[pullquote]کورونا وائرس کی وجہ سے مولانا کے گھر پر احتیاطی تدابیر [/pullquote]

میں جونہی مولانا فضل الرحمان صاحب کے گھر کے داخلی دروازے پر پہنچا تو مولانا کا سیکورٹی گارڈ فورا سامنے آن کھڑا ہوا ، چہرے پر ماسک ، ہاتھوں پر داستانے اور سینٹائرز ، کہا پہلے ہاتھوں کو سینٹائز کر لیں . اگر چہ میری جیب میں سینیٹائزر کی چھوٹی سی بوتل موجود تھی تاہم میں نے گارڈ سے لیکر اسے ہاتھوں پر طریقے کے مطابق مل لیا .

اندر داخل ہوا تو مولانا کے گھر میں کام کرنے والوں تمام افراد نے ماسک پہن رکھے تھے . مولانا کی بیٹھک میں مولانا صاحب کے علاوہ ان کے بھائی عبید الرحمان ، صاحبزادے مولانا اسعد محمود ، مفتی محمد ابرار ، جے یو آئی مانسہرہ کے رہ نما ملک نوید سمیت کچھ افراد موجود تھے .

مولانا نے ہمیشہ کی طرح محبت سے استقبال کیا . حال احوال کے بعد موجودہ حالات زیر بحث آئے .میں نے پہلی بار دیکھا کہ مولانا سوشل میڈیا کو بہت زیادہ مانیٹر کر رہے تھے . یو ٹیوب ، واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کو مسلسل فالو کر رہے تھے .

[pullquote]مولانا فضل الرحمان اور مین اسٹریم میڈیا[/pullquote]

مجھے یاد ہے کہ ماضی میں مولانا صاحب کو اکثر یہ شکوہ رہتا تھا کہ میڈیا ان کے پروگراموں کو پروگراموں کی حیثیت کے مطابق کور نہیں کرتا . یہ بات درست بھی ہے . مولانا کے بڑے بڑے جلسے ہوتے تھے لیکن مین اسٹریم میڈیا میں انہیں کبھی کبھار ہی مناسب جگہ ملتی تھی . اس میں کسی حد تک ان کی جماعت کی اپنی میڈیا پالیسی نہ ہونے کا بھی عمل دخل تھا تاہم درست بات یہ ہے کہ مولانا کو پارلیمان میں بھی اہم ایشوز پر گفتگو کرتے ہوئے مین اسٹریم میڈیا پر کم جگہ ملتی تھی .

[pullquote]جے یو آئی کی سوشل میڈیا ٹیم [/pullquote]

جے یو آئی کی صد سالہ کانفرنس سے پہلے جے یو آئی نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم بنائی . اسے منظم کیا . سوشل میڈیا اجتماعات منعقد کیے . تربیتی اجلاس بلائے گئے . اپنے جماعت کے کئی لوگوں کو ڈیجیٹل میڈیا کی طرف راغب کیا . مولانا راشد سومرو کی سرپرستی میں مولانا یوسف خان لغاری ،سمیع سواتی، مولانا سلیم سلیمانی ، ایمل خان سواتی سمیت جے یو آئی کے کئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور اپنا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کی "گرفت” بھی کرتے رہتے ہیں .

مولانا فضل الرحمان ، حافظ حمد اللہ اور حافظ حسین احمد سمیت جے یو آئی کی مرکزی قیادت بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے . آزادی مارچ میں اسی سوشل میڈیا ٹیم نے زبردست طریقے سے ٹرینڈ بنائے . یوٹیوب پر اجتماع کو مسلسل براہ راست دکھایا جاتا رہا . اب سوشل میڈیا پر مولانا کے لاکھوں فالوورز موجود ہیں . انہیں اب مین اسٹریم میڈیا کی اپنا پیغام اپنے کارکنان اور سیاسی مخالفین تک پہنچانے کی وہ ضرورت نہیں رہی جتنی پہلے تھی . تاہم مولانا زرائع ابلاغ کی اہمیت سمجھتے ہیں . وہ صحافیوں سے اپنا رابطہ رکھتے ہیں . انہیں پڑھتے ہیں . اپنا فیڈ بیک دیتے ہیں . روزانہ مختلف الخیال افراد سے ملاقاتیں بھی کرتے رہتے ہیں .

[pullquote]صحافی اور سوال [/pullquote]

مولانا کی مجلس کئی حوالوں سے یادگار ہوتی ہے . آپ کچھ نہ کچھ سیکھ کر ہی وہاں سے اٹھتے ہیں . مولانا سے کافی عرصے بعد ملاقات ہو رہی تھی . صحافیوں کا کام سوال کرنا اور کریدنا ہوتا ہے . جملوں میں سے جملے نکلتے رہتے ہیں اور تب کہیں جا کر خبر کا تندور گرم ہوتا ہے . اکثر صحافی بیانات کو خبر سمجھتے ہیں . بیان تو سیاسی لیڈر خود دیتا ہے تاہم خبر اسے کہتے ہیں جو وہ اکثر چھپاتا ہے . اگر وہ خبر خود بتا رہا ہو تو تب یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کیوں بتا رہا ہے ؟ .

صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ خبر نکالے .خبر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ باتوں کو غور سے سنیں ، اس وقت تک سنیں جب تک بولنے والا بول رہا ہے . ٹی وی پر چالیس سیکنڈ والی خبر نے خبر کے ساتھ رومانس ہی ختم کر دیا ہے .

میں اکثر پریس کانفرنسوں میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے صحافی مناظر بن کر سوال کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کو داد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں کہ کیسا سوال کیا ہے . بقول ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب کے کہ ” کیسا دیا ”

[pullquote]خبر اور مناظرے[/pullquote]

منہ توڑ سوال اور دندان شکن جواب مناظروں میں چلتے ہے، صحافت میں نہیں . اکثر ہم دیکھتے ہیں پریس کانفرنسوں میں سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ہے. ہر رپورٹر سوال کرنا چاہتا ہے .ارے بھائی ، سوال جواب غور سے سن لو ، اگر ضرورت ہے تو پھر سوال کر لو . سوالات کے زریعے حاضری لگانے کے بجائے اپنی خبر کے زریعے حاضری لگائیں .
جب سے الیکٹرانک میڈیا آیا ہے ، سوال کم اور شور زیادہ ہوگیا ہے .

ایک دور میں اپنے چینل کا لوگو تمام اسکرینز پر دکھانے کا مقابلہ شروع ہو گیا تھا . کئی موقعوں پر تو میں نے دیکھا کہ رپورٹرز کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ مائیک بات کرنے والے کے منہ میں گھسا دے .2008 کے انتخابات کے بعد جب زرداری ہاوس اسلام آباد میں وزارت عظمی کے لیے سید یوسف رضا گیلانی کا نام فائنل ہوا تو پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر صاحب میڈیا ٹاک کے لیے آئے ، ایسے ہی ایک ” ہنگامی ” ریوڑ سے بچھڑے رپورٹر نے اتنا زور سے مائیک آگے کیا کہ مائیک سیدھا میرے منہ پر مار دیا . میرا سامنے والا دانت جو پہلے ہی کمزور تھا ، ٹوٹ گیا .

[pullquote]” مجھے کیا پتا میں تو صحافی ہوں ” [/pullquote]

کچھ عرصہ پہلے کراچی میں استاد محترم وسعت اللہ خان صاحب کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا تو صحافت پر بات چل پڑی . صحافی مطالعہ کرتے ہیں اور نا ہی لوگوں سے ملتے ہیں . اخبار پڑھنا تک گوارا نہیں کرتے . ویسے آج کل جو اخبارات اور میڈیا کی حالت ہے نہ پڑھنا ہی زیادہ بہتر ہے . بیانات زیادہ ہیں اور خبریں کم ، میگزین جو رسمی معلومات کا بہترین ذریعہ ہوتے تھے، اب اشتہارات اور تصویروں سے بھرے جاتے ہیں . وقت کا ضیاع ہیں .

اکثر کالم نگار مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں یا مفاداتی گروہوں کے کوٹے پر کالم لکھ رہے ہیں . یہ بات میں ذاتی طور پر جانتا ہوں . زبان و بیان کی غلطیوں سے ٹی وی اور اخبارات بھرے پڑے ہیں . خیر وسعت اللہ خان صاحب کہنے لگے اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کسی صحافی سے پوچھو کہ کیا خبر ہے تو وہ کندھے اچکا کر کہتا ہے کہ ” مجھے کیا پتا میں تو صحافی ہوں ”

[pullquote]مولانا صاحب سے گفتگو [/pullquote]

گذشتہ روز فجر کے وقت مولانا سے بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں ، انہوں نے کہ کبھی انٹرویو کے بغیر بھی آ جایا کرو . میں نے کہا چلیں ، بغیر انٹرویو کے ہی مل لیتے ہیں . عصر کے بعد ان سے ملاقات ہوئی . میں نے ایک بار لکھا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سیاست دانوں کے مشکل کشا ہیں . انہوں نے مشکل سوالوں کو قہقہے میں اڑانے کا فن رواج دیا . ہم نے کئی موقعوں پر قہقے بھی لگائے . مولانا خوش مزاج انسان ہیں . ہم نے کچھ لطائف سنے سنائے . کئی آف دی ریکارڈ باتیں بھی ہوئیں .

میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے آپ کا پشتو چینل خیبر نیوز پر برادرم حسن خان صاحب کے ساتھ انٹرویو دیکھا . آپ کا موقف بہترین تھا ۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لیکن ہماری مانتا کون ہے ۔ میں نے خیر یہ نہیں پوچھا کہ کون نہیں مانتا ؟

[pullquote]علاج، پرہیز اور احتیاط [/pullquote]

مولانا کہہ رہے تھے کہ کورونا وائرس ایک بیماری ہے اور بیماری کے بارے میں تین باتیں کی جاتی ہیں . علاج، پرہیز اور احتیاط ، مسئلہ یہ ہے کہ علاج تو اس وائرس کا ابھی تک آیا نہیں ، پرہیز اور احتیاط ہم لوگ کر نہیں رہے . مولانا نے مجھے ایک فتوی پڑھ کر سنایا کہ اگر کسی شخص کو بیماری یا خوف لاحق ہے تو وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ سکتا ہے اور کسی کو کہیں سے بیماری لگنے کا امکان بھی ہے تو وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے .

[pullquote]کنفیوژن [/pullquote]

مولانا کہنے لگے کہ کورونا وائرس ایک وبا ہے اور وبا سے متعلق پورے ملک میں پالیسی ایک ہونی چاہیے لیکن ہم دیکھتے ہیں وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کا موقف ایک نہیں . سندھ اور وفاق کا موقف ایک نہیں ، وفاق اور باقی صوبے ایک نہیں . لاک ڈاون کے حوالے سے مختلف موقف سامنے آئے جس سے ابہام پھیلا .جب ابہامات حکومتی سطح پر پھلیں گے تو پھر عوام اور علماء سے شکوہ کیوں کیا جاتا ہے .

[pullquote]علماء کا رویہ [/pullquote]

مولانا کہتے ہیں کہ ہم نے شروع میں مکمل تعاون کیا . علماء کا کہنا تھا کہ شرعی طور پر مساجد کو تالے نہیں لگائے جا سکتے . ہم نے اس کا حل نکالا کہ مسجد میں عام لوگ نہ جائیں بلکہ مسجد کا عملہ جس میں امام ، موذن اور خادم شامل ہوتے ہیں ، وہ فاصلہ رکھ کر نماز پڑھیں . آئمہ مساجد مسجد کے اندر کی ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں . وہ لوگوں سے کہہ سکتے ہیں لیکن زبردستی لوگوں کو روک نہیں سکتے . یہ کام ضلعی انتظامیہ اور اداروں کا ہے . امام مسجد کے پاس لوگوں کو روکنے کا کوئی اختیار نہیں . لوگ کہتے ہیں کہ مارکیٹیں کھلی ہیں . بازار کھلے ہیں . کورونا صرف مسجد میں ہی داخل ہوتا ہے تو ایسے موقع پر امام کیا کرے ؟

[pullquote]مساجد ہائی رسک کیوں ہیں [/pullquote]

میں نے مولانا صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ پوری دنیا میں مساجد بند ہیں . صرف آذان ہوتی ہے ، لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں . مساجد اور عام جگہوں میں ایک فرق ہے . مثلا میڈیا کے دفاتر میں ہر شخص کی ایک مختص جگہ ہے . اس کا اپنا کمپیوٹر ہے . کی بورڈ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا . آفس میں باقاعدہ سپرے کیا جاتا ہے . لوگ ایک دوسرے ہاتھ نہیں ملاتے . ماسک پہن کر آتے ہیں .

مسجد کا معاملہ یہ ہے کہ آپ پانچ وقت مسجد میں نماز کے لیے جاتے ہیں . ہر نماز ایک ہی جگہ پر نہیں ، مختلف جگہوں پر پڑھتے ہیں . صبح جہاں میں نماز پڑھوں گا ، ظہر کو آپ پڑھیں گے . عصر ، مغرب اور عشا کوئی اور پڑھے گا . جب ہم سجدہ کرتے ہیں تو ہاتھ زمین پر لگاتے ہیں . ہمارا منہ ، ناک اور آنکھیں دری یا فرش پر ہوتی ہیں . ہاتھ ہم صرف اس وجہ سے نہیں ملاتے کہیں ہم کسی سے ہاتھ ملانے کے بعد منہ ، ناک یا آنکھوں میں لگائیں تو وائرس منتقل ہو سکتا ہے لیکن یہاں وائرس کا انتہائی رسک ہوسکتا ہے .

مولانا نے کہا کہ اسی لیے تو ہم نے کہا تھا کہ صرف مسجد کے لوگ ہوں . قالین دریاں اٹھا دی جائیں . علماء تو ہر نماز کے بعد مسجد دھونے کے لیے بھی آمادہ ہیں .

[pullquote]علماء اور مفتیان کا رویہ [/pullquote]

میں نے کچھ علماء اور مفتیان کے بارے میں ان سے پوچھا کہ وہ تو پانچ افراد کی شرط بھی نہیں مانتے ،سماجی فاصلے کو بھی نہیں مانتے حتی کی مسجد سے دریاں اور قالین اٹھانے کے فیصلے کو بھی نہیں مانتے .

مولانا نے دو باتیں کہیں . ایک تو یہ کہ علماء نے دینی رہ نمائی کی ذمہ داری پوری کر دی ہے . اب یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو مساجد سے روکے ، اور جو فیصلوں کو نہیں مانتا یہ بھی انتظامیہ کا مسئلہ ہے .

دوسری بات یہ کہی کہ ” قرآن و سنت میں تقدیر اور توکل کے بارے میں بھی احکامات ہیں اور علاج ،پرہیز اور احتیاط کے حوالے سے بھی ، کچھ لوگ بات نہیں سمجھتے ، جو چیزیں عام حالات کی ہیں وہ انہیں خاص حالات میں بیان کر رہے ہیں . انہیں اپنی مشاورت کو وسیع کر کے معلومات کو بہتر بنانا چاہیے .

[pullquote]علماء کیا ذمہ دار نہیں [/pullquote]

مولانا صاحب کہنے لگے اس وقت مذہبی طبقوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے ایک خاص ماحول بنایا جا رہا ہے اور ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ جیسے یہ سارا مسئلہ (کورونا وائرس ) مذہبی طبقوں کی جانب سے پھیلا . ہم اس صورتحال کو اٹھنے سے پہلے ہی سمجھ رہے تھے ، اسی لیے ہم نے ملک بھر کے علماء سے مشاورت کی . جے یو آئی کے اہم اجلاس بلائے گئے . لوگوں سے اپیل کی کہ وہ حفاظتی اقدامات کریں . احتیاطی تدابیر کی مکمل پیروی کریں . ہم نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ اس مسئلے پر انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں . جے یو آئی سندھ روزانہ سیکڑوں افراد میں پکا ہوا کھانا تقسیم کرتی ہے . باقی اضلاع میں بھی ہمارے کارکنان بھرپور تعاون کر رہے ہیں . ہم ذمہ دار لوگ ہیں اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے .

[pullquote]مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب کا انتقال [/pullquote]

مولانا نے کورانا وائرس کی وجہ سے حال ہی میں وفات پانے والے معروف عالم دین مولانا شاہ عبدالعزیز کی وفات پر گہرے صدمے کا اظہار کیا . مولانا شاہ عبدالعزیز مرحوم نے وائرس کا شکار ہونے کے بعد وفات تک تمام عرصہ ڈاکٹرز کی بتائی ہوئی احتیاط کے مطابق گزارا لیکن دو روز پہلے ان کا انتقال ہو گیا .

[pullquote]مولانا طارق جمیل صاحب کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر [/pullquote]

میں نے سیاسی حوالے سے سوالات جان بوجھ کر نہیں کیے . ہم گفتگو کر ہی رہے تھے کہ مولانا کے سیکرٹری برادرم طارق خان صاحب نے کہا کہ مولانا طارق جمیل صاحب عمران خان صاحب سے ملاقات کر رہے ہیں . مولانا میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور یوں ہی مسکراتے مسکراتے مجلس تمام ہو گئی .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے