یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا

میرے کالم کے عنوان کی وضاحت کیلئے خورشید ندیم صاحب کے دو کالم بعنوان مسجد یا دکان اور نماز تراویح کیا ہے ؟ کافی ہیں۔ تاہم چین میں اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کچھ مزید نکات آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں اس خواہش کے ساتھ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات .

کرونا کیخلاف چین کے جدوجہد کے کامیاب ما ڈل کا میں شاہد ہوں، میں پچھلے پونے دو سال سے بیجنگ میں رہ رہا ہوں۔ کورونا کی وبا پھوٹنے کے ساڑھے تین مہینے بعد اور اس پر تقریبا مکمل قابو پانے کے باوجود چین میں کوئی فرد ماسک کے بغیر نظر نہیں آتا۔ کوئی شخص کسی عمارت ،پارک ،مارکیٹ یا دفتر میں کورونا کے ایس او پیز کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا ، ماسک پہنا ہونا چاہیے، جسم کا درجہ حرارت داخلے کے وقت چیک کیا جاتاہے ، ہر دو افراد کے درمیان دو میٹر کا فاصلہ بر قرار رکھا جاتاہے ۔ بیجنگ میں جو بھی شخص باہر سے داخل ہوتاہے مقررہ مدت کیلئے قرنطین ہوتاہے۔ پہلے کورونا کے ایس او پیزدیکھے جاتے ہیں اس کے بعد دوسرے امور ۔ یہ سب کچھ ایسے موقع پر کیا جارہاہے، جب چین میں کرونا سے اموات کا سلسلہ رک گیاہے ۔ ملک کے اندر کیسز تقریبا ختم ہوچکے ہیں اگر چند کیسز سامنے آبھی رہے ہیں تو وہ باہر سے آنے والوں کے ہیں۔ یہ ساری تمہید لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ چین کے اندر کرونا سے تقریبا مکمل چھٹکارا حاصل ہونے کے باوجود سنجیدگی کا یہ عالم ہے۔ اور دوسری طرف ہمارا پیارا ملک پاکستان ہے جو ابھی کورونا کیخلاف جدوجہد کے کٹھن مرحلے میں ہے لیکن لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔

ابھی پوری دنیا میں کووڈ۔۱۹کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے وقت میں جب کورونا نے دنیا بھر کے لوگوں کو نئی طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور کردیاہے، اس کے بارے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ بیوقوفی ہے۔ کورونا کی وجہ سے جو صورتحال اس وقت بنی ہے تاریخ میں اس کی مثالیں بہت کم ہیں ۔بے شک اس نئی صورتحال کو قبول کرنا آسان نہیں اسلئے زندگی کو معمول پر لانے کیلئے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں اور موجودہ صورتحال کے جلد خاتمے کیلئے بھرپور خواہش کا اظہار بھی کیا جارہاہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کورونا کی وجہ سے بنی اس نئی صورتحال کا خاتمہ جلد ممکن ہے یانہیں؟فی الحال اس سوال کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے کیونکہ اس سوال کا جواب ویکسین کی تیاری پر منحصرہے اور فی الوقت دنیا ویکسین کی تیاری سے دور نظر آرہی ہے ۔ ایسے میں ایک ہی حل ہے اور وہ ہے نئی صورتحال کے ساتھ سمجھوتہ ۔ کورونا کے سدباب کیلئے اختیارکیے گئے اقدامات اور دی گئی ہدایات پر مکمل عمل درآمداور تدابیر کے ساتھ سمجھوتہ ۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ کچھ عرصے کیلئے موجودہ صورتحال کو قبول کیا جائے اور غیر متوازن اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی بجائے مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کیا جائے اور معقول طرز عمل اپنا کراس غیرمعمولی صورتحال کو معمول کےطورپرلیاجائے، یہی نیونارمل ہے اوریہی وقت کاتقاضابھی۔

نیونارمل میں سب سے اہم کوروناکو سنجیدگی سے لیناہے۔سنجیدگی کا مطلب اسکی روک تھام کے حوالے سے اپنی انفرادی و اجتمائی ذمہ داری کو اچھی طرح نبھانا ہے اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے ۔ معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی اس وائرس سے بچاو کی کوشش کرے اور اس حوالے سے اس کی جتنی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے اس کو بھی نبھائیں ۔ اس حوالے سے مستند ذرائع سے جو بھی ہدایات مل رہی ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے یہ نیو نارمل کا سب سے بڑا اور اہم تقاضا ہے۔

دوسری سب سے اہم بات حکومت کے ساتھ تعاون ہے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ چین میں ریاست کے ساتھ عوام کے بھر پور تعاون نے مشکل کو آسان کیا اور کورونا کیخلاف جنگ میں انتہائی قلیل وقت میں کا میابی دلوائی۔یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

نیو نارمل نے اکثر لوگوں کو فراغت میسر کی ہے جس کا تعمیری استعمال اس مشکل وقت کو آسان بنا سکتاہے۔ کورونا نے لوگوں کو اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع فراہم کیا ہے اس موقع کو غنیمت جاننا چا ہیے اور محبتیں بانٹنے اور سمیٹنے میں کسی قسم کی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر بہت ساری سرگرمیاں ترتیب دی جاسکتی ہیں، کھانا پکانے سے لے کر اکٹھا کھیلنے تک۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ مل کر تخلیقی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاسکتاہے۔ بہت سارے کام ایسے ہوتے ہیں جو وقت نہ ملنے کی وجہ سے تاخیر کا شکاررہتے ہیں یہ موقع ہے ان تمام موخر کاموں کوسر انجام دینے کا۔اس طرح یہ غیر معمولی وقت غیرمعمولی خوشگوار یادوں میں تبدیل ہوسکتاہے۔

سب سے اہم معاشی سرگرمیاں ہیں ۔ چین میں بہت ایسے امور جن کو کورونا کے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ جاری رکھا جاسکتا تھا جاری رکھا گیا۔ مثال کے طور پر ہمارے آفس میں کم سے کم سٹاف کے ساتھ کام جاری رکھا گیا ، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، آفس بند نہیں ہوا اس دوران دس بارہ لوگوں پر مشتمل سٹاف میں تین یا چار افراد باری باری آفس آکر کام کررہے ہیں ، باقی سٹاف گھر سے ذمہ داریاں نبھا تا ہے ۔ جو کام آن لائن کیے جاسکتے ہیں ان کیلئے یہ طریقہ سب سے بہترین ہے۔ جہاں تک دیگر سرگرمیاں ہیں یا کاروبار ہیں ان میں جو جو کرونا سے متعلق ایس او پیز احتیار کرکے جاری رکھے جاسکتےہیں جاری رکھنے چاہییں ۔

سب سے اہم بات کرونا کے حوالے سے ہر فرد کی ذمہ داری کا احساس ہے۔ مثلا یہاں چین میں ماسک پہننا اب نیونارمل بن چکاہے، اب گھر سے باہر جاتے وقت ماسک کے بغیر عجیب لگتاہے ،کوئی فرد ماسک کے بغیر نظر نہیں آتا ۔ماسک لگانے سے جسمانی تحفظ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تحفظ کا بھی احساس ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دینا چاہیےچین میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ماسک نے بھی حیرت انگیز نتائج برآمد کیے ہیں۔ ماسک کے استعمال کو پاکستان میں حکومت کی طرف سے لازمی قرار نہیں بھی دیا جاتا تب بھی لوگوں کو ازخود ماسک کے استعمال کو معمول بنانا چاہیے۔ ماسک کیسا ہونا چاہیے اب اس بارے میں کافی آپشنز اور لچک موجود ہیں۔

نیو نارمل میں غیر ضروری آوٹ ڈور سر گرمیاں مکمل طور پر ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ناگزیر ضرورت کے تحت باہر جانا بھی ہو تو کرونا کے ایس او پیز کوملحوظ نظر رکھنا چاہیے ۔کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ ، ہاتھ نہ ملانا اورگلے نہ ملنا ان دنوں بہت اہم ہے اسی طرح گھر لوٹتے ہی صابن سے ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ اور استعمال کی گئی اشیا کو ڈس انفیکٹ کرنا چاہیے۔

نیونارمل میں عمومی صحت کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہت سے امور ایسے ہیں جن کا ہمارے معاشرے میں بہت کم رواج ہے ان میں سے ایک ورزش ہے۔ روزانہ کی مناسب ورزش سے جسم کا مدافعتی نظام مضبوظ ہوتا ہے۔ اسی طرح بیماریوں کیخلاف برسر پیکار مدافعتی نظام کی تقویت کیلئے بھرپور اور پرسکون نیند بھی اتنی ہی اہم ہے۔ بڑوں کیلئے کم ازکم آٹھ گھنٹے اور بچوں کیلئے دس سے بارہ گھنٹےکی نیند اشد ضروری ہے۔ان دونوں چیزوں کو نیو نارمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو چین کی طرز زندگی کے مشاہدے کے بعد ہم نے سیکھاہے۔

اس کے علاوہ سلام یعنی السلام علیکم کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سلامتی کی سب سے اچھی دعاہے سلام کرتے وقت اس کا مفہوم (آپ پر سلامتی ہو ) ذہن میں رہے ۔ اپنے رب سے ہر وقت سلامتی کی دعا مانگنی چاہیے کہ رب کریم اس مشکل وقت کا جلدخاتمہ کرے اور پوری دنیاکوکورونا سے نجات دلا دے ۔ دعا یعنی اپنے رب سے رابطہ دل کو مضبوط بناتاہے ،استقامت عطاکرتاہے اور ہمت دیتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر ہم بھی چین کی طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اس وائرس سے جلد نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ شرط وہی ہے یہ وقت قیام کاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے