جمہوریت اور خلافت کے لفظی اُلجھن سے اب نکلنا چاہیے

بخاری شریف کی اک روایت کا مفہوم ہے آپؐ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت اور حکومت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی۔ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا لیکن چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے میرے بعد یہ کام خلفاء کے ذمے ہوگا اور امت کی ذمہ داری ہوگی کہ ان خلفاء کی اطاعت کرے۔ چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ دعوت کی طرح سیاست،حکومت اور قیادت بھی آپؐ کی زندگی کا اک حصہ ہے جس کے لیے تگ ودو کرنا اُمت مسلمہ پر بحثیت مجموعی فرض کفایا ہیں اہل سنت کے ہاں یہ بات بھی سیرت کے کتب میں واضح طور لکھی گئ ہے کہ اس انتخاب کے حوالے رسولؐ نے کوئی مختص طریقہ کار نہیں بتایا ہے جس میں بڑی حکمت یہی ہے کہ ہر زمانے کے لوگ حالات کو دیکھ کر آسانی سے فیصلہ کرسکےجب چودہ اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو سب سے پہلے جس چیلنج سے یہاں کے باشندوں کے لیے نمٹنا ضروری تھا وہ یہی تھا کہ ملک خداد کا دستور کیا مقرر کرنا ہوگا؟حکمرانی کا حق کس کو حاصل ہوگا؟

آمریت جو طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کہلاتی ہے اس کا تو سرے سے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ برطانوی استعمار کی اسی رویہ سے آزادی کے لیے تو بہت پہلے قربانیاں دی گئ تھیں ؟بادشاہت جو نسل درنسل اقتدار کے انتقال کا دوسرا نام ہے یہ بھی کوئی معقولی طرز کی حکمرانی نہیں تھی جس کو قبول کیا جاتا کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ اس کے لیے ایک ایسی طرز حکمرانی کا انتخاب کیا جائے جس کا نظام عدل وانصاف پر مبنی ہو چنانچہ ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی پہلی منتخب ساز اسمبلی نے قردارد مقاصد کے نام سے کچھ اُصول مرتب کیے۔۔۔۔۔!

مثلاً "اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے_اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا”

ہمارے ہاں اسلامی نظام حکومت کے نفاذ کے لیے بہت سے تحریکیں اُٹھی لیکن سارے کے سارے لفظی اُلجھن کا شکار رہیں جس کے باعث وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوئے خلافت کے نام پر اُٹھنے والوں نے آج تک اپنے منشور میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا کہ اس کے قیام کے لیے حکمت عملی اور اُصول کیا ہیں؟ نام لینا اگر چہ مناسب نہیں سمجھتا لیکن خلافت کے نام پر دو تحریکوں کے بانیوں کو میں نے ہمیشہ کنفیوز پایا ہیں جبکہ جمہویت کو یہاں کے لوگ نے وہ ہاتھی بنایا ہیں جس کا ذکر اک صاحب نے چند بصارت سے محروم افراد کے درمیان کیا کہ آیا تم میں سے کسی نے ہاتھی دیکھا تو سب نے کہا نہیں ، تو اُس صاحب نے کہا آؤ میں تمہیں دیکھاتا ہوں ـ وہ سب نابینا افراد آئے اور ہاتھی کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگے ، کسی کو ہاتھ ملا ، کسی نے ٹانگوں کو پکڑا تو کسی نے سر کو ، کسی کو پیٹ والا حصہ ملا تو کسی نے کان اور دم کو ہی ہاتھی سمجھا ـ

واپسی پر اس شخص نے اُن ساروں سے اکیلے اکیلے پوچھا کہ کیا تم نے ہاتھی دیکھ لیا کیسا تھا؟، ، تو انہوں نے کہا کہ ”ہاں دیکھ لیا” جس نے ٹانگوں کو ہاتھ لگایا تھا اس نے کہا کہ ستون جیسا تھا ،جس نے پیٹ کو ہاتھ لگایا تھا اس نے کہا کہ کوئی گول چیز تھی جس نے کان پر ہاتھ رکھا تو اس نے کہا کہ ایک پنکھے جیسا تھا ـ جس نے سونڈھ پر ہاتھ رکھا تو اس نے کہا کوئی نرم اور سخت چیز تھی ۔ گویا کہ ہر انسان نے ہاتھی کہ ایک حصے کو لیا اور سمجھ لیا کہ ہاتھی ایسا ہی ہوتا ہے ،یہی حال ہمارے ہاں جمہوریت کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھنے والوں کی ہے کہ ہر کسی نے اپنی زاویہ نگاہ سے جو دیکھ لیا اُسے حرف آخر سمجھ لیا میرے خیال میں اب جمہوریت اور خلافت کے لفظی بحث سے نکلنے کی اشد ضرورت ہیں اور باہم ملکر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے آگے بڑھنا چاہیے _

میرے نزدیک اس کے لیے بہترین راستہ جمہوری راستہ ہے جس کا انتخاب قیام پاکستان کے اولین فرصت میں ہوا تھا

جمہوریت پر چند نہیں بلکہ بہت زیادہ اعتراضات اُٹھ سکتے ہیں اور اس میں موجود غلطیوں سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ گویا ان غلطیوں کا ازالہ ممکن نہیں قرداد مقاصد کے جو نکات علماء کرام کی سربراہی میں متفقہ طور پر منظور ہوئیں تھے جن میں سے بعض کا راقم نے اوپر تذکرہ بھی کیا انہیں کی صورت میں اسلامی حکومت کا قیام من وعن ہوسکتا ہے کیونکہ خلافت کے اُصولی اور دستوری بنیادیں اس سے مختلف نہیں ہوسکتی لیکن کون کرے کیسے کرے یہاں تو قابلیت صرف لفاظی بحث میں صرف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

میری نظر میں اس خلیج کو ختم کرنے کے لیے ادارہ ((IRCRA) انٹرنیشنل ریسرچ کونسل فار ریلیجئس آفئیر کی کاوشیں قابل تحسین ہیں جس کے لیے وہ گاہے گاہے سیمنارز کا انعقاد کرتا رہتا ہیں جس میں مخلتف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سکالرز کو باہم ڈائیلاگ کا بہترین موقع میسر آتا ہے جس سے رفتہ رفتہ یہ خلیج کم ہوتا جارہاہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے میں مزید تیزی لائی جائے _

اللہ رب العزت ہمیں اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے باہم متحد ومتفق فرمائے_آمین یار العالمین۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے