کورونا ، دین اسلام اور سیاسی مولوی

منبر اور مسجد انسانوں سے آباد ہوتے ہیں ، جن کی تعمیر انسان کرتا ہے ، انسان کا معمار اللہ خود ہے ، انسان اشرف المخلوقات ہے ،اس کی جان لینا اللہ نے حرام قرار دی ہے، ایک انسان کی موت پوری انسانیت کی موت قرار دیا ہے ، موت کا باعث بننے یا بنانے والا انسان بھی قاتل ہے ، مسجدیں انسان ہی بناتے ہیں اور ان ہی سے آباد ہوتی ہیں، انسان صحت مند رہے اور زندہ رہے تو مسجدیں بھی آباد رہیں گی، زندگی بچانا اللہ نے فرض قرار دیا ہے جیسا کہ نماز فرض ہے ، اگر زندگی کو بچانے کا فرض ادا ہوا تونماز بھی ادا ہوسکے گی اور یہ ضروری نہیں کہ ہنگامی حالات میں نماز مسجد میں پڑھی جائے

اللہ نے اپنی ساری زمین کومسجد قرار دیا ہے، نماز گھر میں ، گھوڑے پر، کسی بھی سواری پربا جماعت اور بلا جماعت پڑھی جا سکتی ہے – جب معذوری لاحق ہو تو عبادات کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے-اس اضطراری کیفیت میں نماز پڑھنے کا موزوں ترین مقام کون سا ہے یہ حالات کی سنگینی پر منحصر ہے، جس کے بارے میں مستند اطلاع ، علمیت اور اس کے اہتمام کا فیصلہ کرنا حکومت اور اس کے زمہ داروں پر منحصر ہے-محدود اور مشروط عوامی اجتماع اور اختلاط صرف اس جگہ کی حد تک روا ہونا چاہیے جو کسی اور کو متاثر کرنےکے خدشے کے بغیر روز گار یا روز مرہ کی ضروریات کے لیے نا گزیر ہوں اور اس کے علاوہ ان کا کہیں اور ہونا ممکن نہ ہو- یہ ضد کی بات نہیں ادراک کی بات ہے-

ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہیں اور دنیا بھر کی اسلامی ریاستوں میں مسجدیں ریاست کے نظم کی پابند ہیں- سب مسلمان ریاستوں نے مسجدوں بلکہ حرمین شریفین جو افضل المساجد ہیں ، کو مکمل طور بند کر دیا گیا ہے- جو اسلامی دنیا میں نے دیکھی ہے جس میں نمایاں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، ترکی ، سنٹرل ایشیا کی چند ریاستیں، وہاں مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں، جہاں اذان اور نمازایک وقت میں ہوتی ہے ، امام ، خادم اور دیگر عملہ اور اگر درس کا نظام ہو تو اس کا خرچہ ریاست برداشت کرتی ہے-

ہمارے ہاں صبح، دوپہر اور عصر کی اذانیں اور نمازیں تقریبآ پونے گھنٹے پر محیط ہوتی ہیں ، یہ حکومت کی رٹ کی کمزوری کی علامت ہے- عام لوگ یہ سب کچھ سمجھتے ہیں – اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ خط ، تار یا نورانی قائید پڑھانے کے لیے ڈاک بابو، مسجد کے امام یا خوش قسمتی سے کسی گاؤں گوٹھ میں دو تین جماعت پڑھے کسی شخص کےپاس جایا جاتا تھا- علم و آگہی کے سمندر میں تین چار سال کا بچہ بھی اتنی سمجھ رکھتا اور ایسے سوال کرتا ہے جتنا میں نویں دسویں جماعت میں نہیں کر سکتا تھا-

کوئ انتہائی نازک فقہی مسئلہ ہوگا جس کے لیے کسی مستند عالم سے رائے کی ضرورت پڑے ورنہ روزمرہ کے دینی معاملات کا ادراک ہر وہ شخص رکھتا ہے جو پڑھ لکھ اور سمجھ سکتا ہے- سوشل میڈیا نے معاملات کو اور زیادہ آسان بنادیا ہے- بے شمار دینی مسائل کا جواب عصر حاضر کے علماء کے ذریعہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں.

ہمارے ہاں امام مسجد اور اس کے ساتھ منسلک دیگر لوگ اور مدرسہ کسی نہ کسی مذہبی سکول آف تھاٹ ، بہ الفاظ دیگر کسی نہ کسی فرقہ سے وابستہ ہوتا ہے جس کی فنڈنگ چندے ، حکومتی گرانٹ اور اس جماعت کے فنڈ سے کی جاتی ہے، جو اندرونی طورپرخود مختار ہیں لیکن ملکی نظم کے تابع ہیں- اس لئے یہ ان کے روز گار کا مسئلہ بھی ہے-

یورپ ، امریکہ اور افریقہ میں بھی چرچ حکومت کے پروٹوکول کے تابع ہیں گوکہ اپنا نظم و نسق چلانے میں خود مختار ہیں- ان کی فنڈنگ بھی عام لوگ کرتے ہیں اور ان کی خدمت پر مامور لوگوں کی تنخواہ بھی وہیں سے ملتی ہے ، بائبل کے تحت ہر عیسائی اپنی آمدن کا دس فیصد چرچ فنڈ کو دینے کا پابند ہے ، ایسا ہی یہودیت میں بھی ہے،ان کی آمدن کا وہ بھی ایک ذریعہ ہے.اس لیے ان کے روز گار کا کوئی مسئلہ نہیں-

باقی مذاہب کے علاوہ تینوں بڑے اہل کتاب کی مرکزی اور ذیلی عبادت گاہیں حکومت کے حکم کے تحت بند ہیں جن میں حرمین شریفین، چرچ آف ویٹیکن ، چرچ آف انگلینڈ ، مسجد القدس، دیوار گریہ عبادت کے لئے بند ہیں- کسی نے شور نہیں مچایا – کسی کامذہب خطرے میں نہیں پڑا ، سوائے پاکستان کے اور اس کی وجہ اکثر مکاتب فکر کی مساجد چندہ پر چلتی ہیں اور چندے سے ان سےمنسلک لوگوں کے اخراجات پورے ہوتے ہیں،مذہبی جذبات کے علاوہ اس کے پس پردہ روز گار کا مسئلہ بھی ہے-

بڑی سیاسی جماعتیں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس سلسلے میں دو ٹوک بات بھی نہیں کرتیں کہ یہ کہیں ناراض نہ ہو جائیں-اگر حکومت مساجد دیگر اسلامی ملکوں کی طرح اپنی تحویل میں لے لے اور ان کے اخراجات پورے کرے تو مسئلہ یقینآ حل ہوجائے گا -یہ منت ترلے کرنے والی کون سی بات ہے ، اسلامی حکومت ہے جو اسلامی ملک کے مفاد میں سمجھے اسے کرنا چاہیے وگرنہ یہ آئینی حلف سے انحراف ہے –

نماز ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے لیکن زندگی ہر جگہ محفوظ نہیں ہوتی – زندگی
کو تقدم حاصل ہے- سننے میں آیا ہے کہ مسجدوں میں باہم چھ فٹ کا فاصلہ رکھ کر نماز جمعہ اور تراویح کی بھی اجازت دی گئی ہے -کیا یہ ہجوم نہیں ہے؟

عوام کوئی فوجی رجمنٹ نہیں جہاں کمانڈر کے حکم کی تعمیل میں ایسا کریں – اگر نماز کی صف بندی کی سنت کو دیکھا جائے توصفوں میں کندھے سے کندھا ملانا لازمی ہے، درمیان میں خلاء نہ رہے ، اضطراری کیفیت میں اگر اس سنت کو ترک کرنا جائز سمجھاگیا ، تو جماعت کو معطل کرنا کیوں نہیں؟ ہمارے علماء اور اطباء اس وائرس سے بچنے کے لیے الکوحلک سینی ٹائیزاستعمال کرنے کو جان بچانے کے لیے لازمی قرار دے رہے ہیں ، کیا الکوحل جائز ہوگیا ؟ بالکل نہیں ، لیکن ایک وبا سے بچنے لیے جائز ہے-

عرب میں رواج تھا کہ پھلواڑی کے موسم میں لوگ کھجوروں کے درختوں پر “گھابھا” جو ایک قسم کی پیوند کاری ہوتی ہی ، لگاتےتھے ، رسول اللہ صلعم نے ایک سال ان کو ایسا کرنے سے منع کیا ، اس سال کھجور کی فصل کم ہوئی، حضور سے شکایت کی گئی ، انہوں نے فرمایا آپ اپنا عمل جاری رکھیں، دنیاوی معاملات میں آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں –

اسلام ایک ہمہ گیر دین ہے ، یہ پریکٹس اگر دنیا بھر کے مساجد اور علماء نے سائنس دانوں اور اطباء نے لازم قرار دی ہے تو ہم کیا امت کا حصہ نہیں ؟ تمام دنیا میں یہ رائے سائنس، طب اور اور اسلامی روایات کے پس منظر میں قائم کی گئی ہے ، ہمارے ملک بھر کے ڈاکٹر بھی یہی مشورہ دیتے ہیں تو امت واحد کیوں نہیں بنتے؟

نہ جانے پاکستانی کیوں ہر معاملے میں انفرادیت پسند ہونے میں فرحت محسوس کرتے ہیں- ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں سے کسی ایک میں وہ وائرس پایا گیا ، اس کی پاداش میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو سزا بھگتنی پڑ رہی ہے- ایران و عراق سے زیارات سے واپسی پرکسی مسلمان میں یہ وائرس پایا گیا پوری شیعہ برادری کو ملامت کا نشانہ بنایا گیا-

مناسب یہی ہے جو لوگ اس کے ماہر ہیں ، ان کے مشورے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی پریکٹس کو اپنایا جائے – ضد نہ کی جائے ، ریاست اور حکومت کو تمسخر کی علامت نہ بنایا جائے –

چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی

چند سیاست زدہ مولوی صاحبان جذباتی بننے اور بنانے کی کوشش نہ کریں ، خود مسجد میں بیٹھ کر ان کو آباد رکھیں اور اپنی صحت وحفاظت کا بھی خیال رکھیں تاکہ حکومت عام لوگوں کا خیال رکھ سکے ، مسجد میں بیٹھ کے تسبیح و استغفار بھی کریں ، انسانوں اورملک کے لیے اللہ سے خیر مانگیں ، اللہ سب کو سود و زیاں کے ادراک کی تو فیق عطا کرے ، اللہ اپنے کلام اور اس کے نبی کی تعلیمات کو عصری تقاضوں کے مطابق سمجھنے کی توفیق عطا کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے