چین میں کورونا وائرس کے علاج میں تاریخی کامیابی

چین میں چوبیس اپریل کووڈ-19 کے علاج میں کامیابی کے حوالے سے ایک اہم دن تھا جب آخری شدید بیمار مریض بھی صحت یاب ہو کر ہسپتال سے ڈسچارج ہوگیا۔ اس موقع پر چین کے طبی ماہرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان تجربات کو دنیا کے ساتھ شئیر کریں گے۔ عالمی وبا کے خلاف نبرد آزما دنیا کے لئے یہ ایک خوشی کی خبر ہے۔

چین میں کووڈ-19 کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر ووہان میں وبا سے متاثرہ آخری مریض بھی مکمل طور پر صحت یاب ہوچکا ہے۔ جو موجودہ حالات میں ایک بڑی کامیابی اور دنیا بھر کے لئے خوشی کی خبر ہے۔

چین نے کووڈ-19 کی وبا کے خلاف جدوجہد کے دوران بلند و بانگ دعوے کرنے کی بجائے مرحلہ وار اقدامات اختیار کئے۔ اس حوالے سے چین کو پہلی کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب دسمبر کے آخر میں وائرس کی شناخت کی گئی۔ اس کے بعد چین نے اس وائرس کے پھیلاؤ کے طریقہ کار کا پتہ چلایا اور اس کو روکنے کے لئے اس کے خلاف لاک ڈاؤن کی شکل میں ایک بڑی حفاظتی دیوار تعمیر کی اور پوری دنیا کو اس کے اثرات سے محفوظ کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ چھہترروز تک ایک کروڑ سے زائد افراد ایک شہر میں محصور رہے۔ بظاہر یہ ناممکن دکھائی دیتا تھا لیکن چینی قوم نے اپنے نظام کی مضبوطی سے یہ ثابت کردیا کہ بڑے مقاصد کے حصول کی راہ میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔

لاک ڈاؤن کے مرحلے کے بعد حکومت نے پورے ملک سے وبائی ماہر اکٹھے کیے اورووہان شہر میں 12دنوں میں ہزار سے زائد سے بستروں کے دوعارضی ہسپتال قائم کردئیے جن میں سے ایک کی گنجائش بارہ سو بستر اور دوسرے کی سولہ سو بستر تھی۔ اس دوران صوبہ ہونے میں چودہ سے زائد فیلڈ ہسپتال بھی قائم کئے گئے جہاں دوسرے شہروں اور صوبوں سے آنے والے ڈاکٹر تعینات ہوئے۔ مشکوک مریضوں کو قرنطینہ مراکز میں ماہرین کی نگرانی میں رکھا گیا۔

چین بھر سے 41 میڈیکل ٹیموں سے وابستہ 3675 طبی عملے کے ارکان نے وباء کے مرکز صوبائی دارالحکومت ووہان اور صوبہ ہوبے کے 14 عارضی اور سات مخصوص وبائی ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دیں۔ اس عملے نے اس دوران اکثراوقات مسلسل 36 گھنٹوں تک کام کیا۔ ابتدائی دنوں میں حفاظتی لباسوں کی کمی وجہ سے یہ آرام کرنے بھی نہیں جاتے تھے۔ ہسپتال میں اپنی کرسی پر ہی سو جاتے تھے۔ چینی قوم ،طبی عملے اور قیادت عزم، ہمت اور اتحاد سے وباء کو شکست دی ہے۔

اگلے مرحلے میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لئے آئرن ولنٹیئرز کے نام سے ایک رضاکار فورس قائم کردی گئی۔ ہرکوئی اپنے اپنے کام پر لگ گیا، صبح و شام اور رات ودن کی تمیز ختم کردی گئی۔ چین کے اس لاک ڈاؤن کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب چین میں کرونا وائرس کا کوئی بھی نیا مریض نہیں ہے۔ ووہان میں معمولات زندگی بحال ہوچکے ہیں۔ تمام فیلڈ ہسپتال مریض نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دئیے گئیے ہیں۔یہ ان اقدامات کا فیضان ہے کہ چین وائرس سے بڑی تیزی سے محفوظ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب چین دنیا کا وہ پہلا ملک بن جائے گا جو کورونا وائرس سے مکمل طور پر پاک ہوگا۔

چوبیس اپریل کو چین کے شہر ووہان میں کووڈ-۱۹ سے شدید متاثرہ آخری مریض بھی صحت یاب ہوگیا۔حال ہی میں چائنا میڈیا گروپ کے نامہ نگار نے چین کے قومی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ما شیاو وی کو انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ-۱۹ سے شدید متاثرہ مریضوں کے علاج سے قیمتی تجربات کاحاصل ہوئے ہیں۔یہ تجربات دنیا کے ساتھ شیئر کئے جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبہ حوبے کے ووہان شہر میں کووڈ-۱۹ سے شدید متاثرہ آخری مریض کا صحت یاب ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ چین میں کووڈ-۱۹ کی بیماری کے علاج کی صلاحیت بین الاقوامی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ووہان شہر میں مریضوں کے صحت یاب ہونے کی شرح بانوے اعشاریہ دو فیصد تک جا پہنچی اور کووڈ -۱۹ سے متاثرہ شدید مریضوں کے علاج کے دوران چین کو قیمتی تجربات کا حصول ہوا۔ما شیاو وی نے مزید کہا کہ کووڈ-۱۹ کے علاج کے بعد ایسے مریض جو دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے متعلقہ طبی اداروں میں ان کا علاج کیا جا رہاہے۔

آپ اسے حسن اتفاق کہیئے یا قدرت کا انتخاب جب ووہان میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہا تھا تو چین میں شب برات کی بابرکت گھڑیاں تھیں۔ آج جب ووہان میں کووڈ-19 کا شکار آخری مریض صحت یاب ہوا ہے تو چین میں یکم رمضان المبارک ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک کی بارکت ساعتوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ آئیے اللہ ارب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اس وبا سے عالم انسانیت کی نجات کی دعا کریں۔ بے شک وہ معاف کرنے والا اور ہماری دعائیں قبول کرنے والا ہے۔

[pullquote]تعارف مصنف[/pullquote]

زبیر بشیر چائنا میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔ اس سے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی میں بطور ایڈیٹر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے