جمہوریت کا اسلامی تصور

[pullquote]اولا ہوشکر انکا جنہوں نے بخشا یہ فکر [/pullquote]

یو تو ہر اک انسان چاہتاہے کہ وہ میدان کا شہسوار بن جاۓ مگر جلوت دیکھانے کیلۓ خلوت کا ہونا ہی واضح کامیابی ہے ایسے ہی اپنا بھی اک شوق تھا کہ جمہوریت اور اسکے علاوہ دیگر اہم موضوعات پرمشتمل اک علمی محفل پے خود کو سائل وطالب بنائیں کچھ حاصل کرسکوں تو رب کا شکر جس ذات نے رہبر تحمید جان کے صورت اور مسکن اسلامی نظریاتی کونسل کےصورت ان عملی شخصیات سے اسلامی نظریاتی کونسل ورکشاپ میں وہ جواہرات حاصل کرنےکاموقع دیا جس سے اک علمی روح پیدا ہوئی تویقیقنا اسلامی نظریاتی کونسل اسلام تعلیم زندگی کو رائج کرنے میں مصروف عمل ہے تو جمہوریت کا جو اک اسلامی تصور ہے اس حوالے سے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کا مؤقف بھی عین اسلامی ہے کیونکہ اسلام انسان کی زندگی میں وہ بنیادی اہمیت اینٹ ہے جس پر انسان کی انسانیت کا بقا ہے اور اسلام کی اس نعمت کے بدولت انسانیت کو وہ شرف قبولیت حاصل ہے جسکی گواہی خود خالق کائنات کا کلام مقدس اس انداز سے دیتا ہے جس بناپر انسانیت اس عالم میں سب سے محبوب ہے عنداللہ اور اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسانیت کی ہر موڈ پے اجتماعی انفرادی احوال کو طریق مستقیم اور رشد وھدایت کی راہ گامزن کرنے کے طرق سیکھا تا ہے جن پر چل کے انسان اور نظام عالم انسانیت مساوات کے بندہن میں ڈہل کے عدل و انصاف کے پیکر بن کر زندگی گزارتے ہیں۔

اور اسلام ہی اجتماعی معاملات اواجتماعی اصولوں کے سانچے میں ڈہل یکساں اور عدل وانصاف اور افراط وتفریط سے ہٹ کر اک اعتدال پے چلنے کا سلیقہ سیکھا تا ہے تاکہ ہر ایک کو اسکے حقوق کے ساتھ ساتھ اسکی راۓ اور اختلاف راۓ کو ملحوظ خاطر رکھا جاسکے جو ہر فرد معاشرہ اپنے راۓ دینے کا اہل ہے اور اسلام اک اجتماعی احوال میں سب کے اشتراک راۓ اور اتفاق اجتماعیت کا داعی ہے تو یو ہی جمہویت جو اک اجتماعی احوال کو اجتماعی راۓ کے مطابق چلانے کا نام ہے جسکو سادہ لفظوں میں یو کہاں جاۓ کی عوام کے اجتماعی معاملات کو چلانے کیلۓ عوام کی اکثریت کی راۓ پر عمل کرتے ہوۓ کسی حکم کو لاگوں کیا جاۓ جس میں نہ صرف کسی فرد واحد کے تصرف ہو نہ دین مبین کے کسی اصولوں سے منحرف ہو بلکہ وہ دین کے تقاضوں کے بھی عین مطابق ہو کیونکہ قرأن مجید کا حکم أمرھم شوری بینہم کا بھی یہی واضح مطلب ہے کہ مسلمانوں معاملات کو انکے مشورے سے چلایا جائیں جس پر اتفاق بھی ہو اور اور اجماعیت عملا بھی کار فرما ہو نہ کہ صرف راۓ کے حد تک اجتماعیت ہو باقی کسی فرد واحد کی راۓ قابل تقلید ہو عوام کے اجتماعی معاملات کو چلانے کیلئے عوام کی اکثریت کی راۓ پر عمل کرنے کے اس عمل کو جمہوریت کہاں جاتا ہے جسکا محض تصور نہیں بلکہ عملی صورت میں اس اجتماعیت اور جمہوریت کے قیام کا تاریخ اسلام میں کئ مثالیں ملتی ہے۔

جو اس بات پر واضح دلالت کرتی ہیکہ جمہوریت اسلام کااک طرز عمل ہے جس بنا ہر ایک کی راۓ کا احترام کیا جاتاہے چناچہ امر ہم شوری بینہم کے اس اجتماعی جمہوری اصول و قانون اسلامی کے سایہ تلے قرون سابق میں حکمرانوں کا انتخاب اور معزول اور باقی اجتماعی معاملات بھی لوگوں کی مرضی سے طے کۓ جاتے تھے چنانچہ خلافت راشدہ کے انتخاب میں بھی یہی اتفاق راۓ اور جمہوری راۓ کا اصول کار فرما رہا اور اس اصول کے تحت خلفاۓ راشدین اصلا لوگوں کی اس جمہور راۓ اور انکی مرضی سے ہی حکمران بنے اور اسلام کا بھی یہ طرزتعلیم اسلامی جمہوریت کے اپنانے میں ہے کہ افراط وتفریط سے ہٹ کر اعتدال اور اجتماعی اصول کے مطابق معاشرے کی تکمیل کی جاسکے جسکی واضح مثال حضرت عمر بن عبد العزیز کی ہے جنہوں نے اپنی نامزدگی کے باوجودلوگوں کی أزاد مرضی کے بعد اس ذمہ داری کو قبول تھا اور اس طرح حضرت عمر فاروق رضہ جس کے صرف نام سنتے کفر کے ایوان کانپ اٹھتے تھے مگر اس ذات نے بھی اس جمہوری طرز انتخاب کے بارے ارشاد فرمایا مسلمانوں کے مشورے بغیر مسلمانوں کے نظم اجتماعی کا قیام اور بقا ناممکن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے