قصہ ایک فاتحہ کا

چند روز ہوئے ایک جگہ فاتحہ کے لئے جانا پڑا۔ ایسے موقعوں پر اکثر میں زہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہوں۔

ساری عمر اس فن فاتحہ خوانی سے نا بلد ہی رہا۔ ہمارے یہاں ہر کسی کے ہاں فاتحہ کے اپنے رواج ہیں۔ کچھ تین دن میں بھکتا کے فارغ ہو جاتے ہیں اور کہیں پسماندگان ایک ہفتہ یہ افتاد جھیلتے ہیں۔

کہیں مولانا صاحب بٹھائے جاتے ہیں، جو کسی بھی نو وارد کو دیکھتے ہی با آواز بلند فاتحہ شروع کردیتے ہیں۔

اصل افتاد تو مرحوم کے پسماندگان پے پڑتی ہے۔ ہر شخص کو ایک ہی کہانی دھرانی پڑتی ہے کہ مرحوم کیونکر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ایسا کرتے ہوئے چہرے پہ غم جھلکنا وقت کی ضرورت میں شامل ہے۔

اب یہ بیان کردینے پر اکتفا ہو تو کیا بات ہے، یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ مرحوم کس عارضہ میں مبتلا تھے۔

اکثر پتہ چلتا ہے کہ پرسہ دینے والے کے والد محترم یا دادا بھی اسی عارضہ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے، ” بڑا ہی موزی مرض ہے” وہ ھاتھ ملتے ہوئے گویا ہوتے ہیں۔

اب صاحب خانہ ٹانگیں سیدھی کرنا چاہتے ہی ہیں کہ چند اشخاص اور داخل ہوتے ہیں، ابھی مولوی صاحب ھاتھ اور آواز بلند کرنے ہی لگتے ہیں کہ ان میں سے ایک جھپٹ کے ان سے بغل گیر ہوتے ہیں اور مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات کی داستان دھراتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ مرحوم صحت کے بارے میں بڑے لاابالی تھے۔

پھر پوچھتے ہیں کہ نیک خصلت نے پسماندگان میں کتنے سوگوار چھوڑے ہیں؟

بھائی یہ بھی خوب رہی کہ تعلقات تو دیرینہ تھے پر یہ معلوم نہیں کہ انکے پسماندگان کتنے تھے۔پھر وہ مرحوم کی بیماری پہ تبصرہ بھی اپنا حق جانتے ہوئے، اس پہ بھی سیر حاصل رائے زنی کرتے ہیں۔ وہ ڈاکٹروں کی بے حسی کے قصے بھی چھیڑ دیتے ہیں۔ اب فاتحہ لینے والے آدھ موھے ہو چکے ہیں اور اتنی دیر میں کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔

اب بیشتر میت کے کھانے سے پرھیز ظاہر کرتے ہیں، پر دل جوئی کی خاطر چند لقمے کا عندیہ دیتے ہیں۔ اب بریانی کی تعریف تو واجب ہے، یہی نہیں، اس نائی کی بھی تعریف کرتے جاتے ہیں، اسی دوران کچھ صحتمند بوٹیاں پلیٹ میں بنی پہاڑی میں سرکا لیتے ہیں۔

جب تیسرے دن ہمارہ گزر وہاں سے ہوا تو ہم نے دیکھا کہ فاتحہ لینے والے صاحب ڈاکٹر کی طرف جارہے تھے۔ ان تین دنوں میں انکا بلڈ پریشر قابو سے باہر ہو گیا تھا۔

اگر وہ چند فاتحہ اور لے لیتے تو شاید انکی فاتحہ میں ہمیں جانا پڑتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے