عظیم مائیں کیسی ہوتی ہیں

فروخ تابعین کے زمانے میں ایک مجاھد تھے ، اسلامی لشکر مدینہ منورہ سے جس طرف رخ کرتے،وہ جیش کے ایک حصے کے کمانڈر ہوتے، ایک دفعہ بنی امیہ کے دور خلافت میں بلادِ ماوراء النہر ،خراسان اور سینٹرل ایشیا کی طرف نفیر ِعام کا اعلان تھا، فروخ بھی جلدی جلدی تیارہوئے ، کمر کس لی ، گھوڑے پر سوار ہوئے ،نان نفقے کے طورپر اپنی بیگم سُہیلہ کو 30ہزار درہم یا دینار جو حوالے کئے تھے، اس کے متعلق اور دیگر امور کے حوالے سے وصیت کرکے رخصت ہوئے ، جنگ تو جنگ ہوتی ہے ، کبھی حالات سازگار اور کبھی ناموافق ہوتے ہیں،

فروخ چارماہ بعد گھر واپس ہونا چاہتے تھے ، لیکن تدبیر کچھ ہوتی ہے اور تقدیر کچھ کرتی ہے ،27 سال کا طویل عرصہ ہوا، وہ گھر نہ آسکے ، فتوحات پر فتوحات میں اپنے حصے کے لشکر کا کمانڈ کرتے رہے ، اموال غنیمت بھی خوب ملے ، مگر بیگم اور وہ بھی حاملہ کا غم سفر میں سرپے سوار تھا، اتنی لمبی مدت کے بعد جب وہ مدینہ طیبہ پہنچے ، تو فجر کا وقت قریب تھا، انہوں نے سب سے پہلے جاکر مسجد نبوی ﷺ میں دورکعت ’’تحیۃ المسجد ‘‘ کی نمازپڑھی، پھرتہجد اداکیا، اتنے میں اذان ہوئی ، لوگ آتے گئے ،

مسجد کھچا کھچ بھر گئی ، جماعت کرائی گئی ، دعاء کے بعد ایک عظیم الشان علمی مجلس سج گئی ، لوگوں کا ازدحام بہت تھا، وہ قریب نہ جاسکے کہ شیخ کون ہیں ، دور ہی دور سے انہوں نے دیکھا کہ مسند لگائی گئی، اس پر ایک نوجوان نورانی چہرے والے عالم دین آکر تشریف فرما ہوئے ، نہایت میٹھی آواز میں قرآن وحدیث اور فقہ پر درس دینا شروع کیا، تونکتے نکتے پر واہ واہ اور سبحان اﷲ سبحان اﷲ کے زمزمے گونجنے لگے ، فروخ نے عین اس وقت سوچا ،کاش میں کوئی اس طرح فقیہ ہوتا، وہ سنتے رہے ،سوچتے رہے ،

حضرت کا درس ختم ہوا، تو سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، لوگ مشکل سے مشکل تروہ مسائل پوچھنے لگے ، جنکا قرآن وحدیث میں صریح اور منصوص تذکرہ نہیں تھا، شیخِ مجلس اپنی رأے’’قیاس و اجتھاد‘‘ کرکے ایسا جواب دیتے کہ سننے والوں کو فرحت ومسرت کے ساتھ ساتھ سکوں ،اطمینان اور تشفی بھی ہوجاتی، آپس میں تشنگان علوم نبوت اورطالبان ِ حق سرگوشیوں سرگوشیوں میں اپنے شیخ کے لئے دعائیہ کلمات اور تعریفی جملے بولتے جاتے ، ’’لِلہ درُّک یاشیخ ،بارک اﷲ فیک ، فتح اﷲ علیک وغیرہ‘‘۔

مجلس ختم ہوئی ، دودو تین تین طلبہ آپس میں اپنی خوش نصیبی اور شیخ کے تفقہ پرفخریہ تبصرے کررہے تھے ، فروخ یہ منظر دیکھ کربے خد متأثر ہواتھا، وہ خوش بھی تھا کہ مدینۃ الرسول ﷺ میں بلند پائے کے ایک عظیم مجتھد موجودہیں ،جس کو مدینہ اور وہ مدینے کو زیباہے ، دوسری طرف وہ نمناک آنکھیں لئے مسجد سے روانہ ہوئے ، کہ ساری زندگی جہاد میں لگادی نہ خود علم حاصل کرسکا، نہ اولاد کی کوئی خیر خبر ،مدینہ مبارک کی گلیوں میں ہوتے ہوئے 27سال کا اجنبی اپنے گھر کے سامنے پہنچا ،گیٹ پر دستک دی ،

اندر سے ایک خوبصورت وخوشنما نوجوان برآمد ہوئے ، جی حضرت ،کیسے آنا ہوا؟۔۔۔ جواب میں فروخ نے کہا ،یہ میرا گھر ہے ،کیسے آناہوا، گھرآگیا، اور تُو کون ہوتاہے ،،میرے گھر میں گھس بیٹھئے کی طرح ، اوپر سے مجھ سے کہتے ہو ،کیسے آنا ہوا۔ نوجوان کو غصہ اس لئے آیا کہ صرف جان نہ پہچان میں تیرا میرا مہان نہیں بلکہ تیرا مالک ِمکان ۔

اجنبی کو غصہ اس بات پر تھا کہ لوگ علم وتقوی اور تفقہ واجتھاد میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ، ادھر میری بیگم ہے کہ گھر میں غیر مردوں کو بسائے رکھاہے ، اور وہ بھی اتنے جری ،کہ آنے والوں سے وہی غیر مرداستقبالی سامنا کرتے ہیں ،پھرکہیں جاکرگھر میں آمدورفت ہوتی ہے ، بحث ومباحثہ دراز ہوگیا،دونوں تھکے ہوئے تھے،

ایک سفر کا اور دوسرا پُر مغزدرس کا ، دونوں میں لڑائی ہوگئی،شورشغب ہوگیا، آس پاس کے لوگ جمع ہوگئے ،اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ لڑکے کی ماں اندر سے باہر نکل آئی ، بغور دیکھا،توپتہ چلا یہ تو اس کا شوہرہے ، وہ ہنگامے کے دوران چیخ چیخ کرکہہ بھی رہاتھاکہ میں فروخ ہوں یہ میرا گھر ہے ،یہاں میری بیوی ہے،سُہیلہ نے آگے بڑھ کر کہا،یہ تمہارے والد ہیں، ۔۔۔

بیٹا بہت شرمندہ ہوا، معافیاں مانگیں،التجائیں کیں،اوراندر چلے گئے،مختلف موضوعاتِ سفر وحضر پر گفتگو ہوئی،آخرمیں فروخ نے کہا، آج تو میں نے مسجد نبویﷺ میں علم و عمل کی ایسی مجلس دیکھی کہ کیا کہنے، ۔۔۔اچھا سہیلہ آپ بتاؤ ،رقم تو اچھی خاصی میں نے آپ کودی تھی ، آپ نے اپنے بچے کو کوئی تعلیم ، ادب اور تہذیب نہیں سکھائی،انہوں نے کہا،آپ کی رقم میں نے دفن کر رکھی تھی،آپ چاہیں ، تو نکال دینگے،ہے مگر محفوظ،انہوں نے چار ہزار کا تھیلا مزید پکڑا دیا،سہیلا نے کہا،کہ کیا آپ کی خواہش ہے کی مسجد نبویﷺ میں ایسی ایک علمی ،فکری اور فقہی مجلس آپ کی ہوتی۔

انہوں نے کہا ، جی توبالکل یہی چاہا آج صبح،لیکن اب اس عمر میں یہ کیسے ممکن ہے ، تو سہیلہ جیسی عظیم بیوی نے کہا کہ آپ کے جانے کے بعدہمارے یہاں یہ بچہ پیدا ہوا تھا، میں نے رات دن ایک کر کے اس کی تربیت کی ، اس کو پالاپوسا ،بچپن ہی سے ایک ایک قاری کی خدمت میں اسے لے جاتی، اور پھر جاکر گھر لے آتی،کچھ بڑے ہوکر فقہاء،محدثین ،اور مفسرین کی مجالس میں خود جانے لگا،تو میں پیچھے تلاوت کرتی، نفلیں پڑھتی، خیرات ،نفقات اورصداقات دیتی کہ یا اﷲ میرے بچے کو صحیح معنوں میں عالم باعمل بنا،یااﷲ میرے شوہرکے سامنے ۔

اگروہ آجائے۔ تومجھے سرخرو کرنا،اس طرح کی دعائیں مانگتی ،تواﷲ تعالیٰ نے آپ کے جہاد کی بدولت ہم سب کی حفاظت فرمائی،آپ خیریت سے لوٹے ، میں بھی زندہ ہوں اور خوش ہوں،اور وہ امام جس کے متعلق آپ صبح مسجد میں سوچتے رہے کہ کون ہے ، دور ہونے کی وجہ سے آپ اسے پہچان نہیں سکے،وہ امام مدینہ ،مجتہدزمانہ آپ کا یہی بیٹا ربیعہ ہے ،جو امام ’’ربیعۃ الرأی ‘‘سے مشہور ہے، یہ کہنا تھا کہ والد فرط ِجذبات میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ،بیٹے سے دیر تک بغل گیر رہے،بیگم ،کا شکریہ ادا کیا ،اﷲ تعالیٰ کے سامنے دوگانہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے،قیام،رکوع وسجود میں گھنٹوں لگے رہے۔

عمران خان کے دہرنوں میں شریک خواتین سے معذرت کے ساتھ، رقص وسرود ،زینت ِ محافل ،سیاستداں اور فیشن ماڈلزخواتین کا وقار ،متانت اورعظمت بسا اوقات قائم نہیں رہ پاتا، عورت کو بنیادی طورپر سُہیلہ ہی کی طرح ایک بیگم،خاتونِ خانہ اور ہاؤس وائف ہوناچاہئے، جی ہاں عظیم مائیں ،بیٹیاں اور بہنیں سُہیلہ کے مانند ہوتی ہیں،اور یہ ان کاکردارہوتا ہے۔
اﷲ سب کو توفیق دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے