بھارت کی گرتی معیشت | چین کا بائیکاٹ | چائنا کادم کہاں

اس وقت پوری دنیا کی معیشت کووڈ ۱۹ کے نرغے میں ہے۔ بڑے بڑے ممالک لڑکھڑا گئے ہیں۔ تاہم ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کیلئے یہ حالات کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہیں۔ان ممالک میں سے بھارت بھی ایک ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں اضافے کے بعد بھارت میں چینی مصنوعات اور سرمایہ کاری کے بائیکاٹ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جو ایک سیاسی نعرہ تو ہوسکتاہے حقیقی نہیں۔

بھارت چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع نہیں کرسکتا۔ اس حقیقت کو بھارت میں حالیہ دنوں ٹڈی دل کے بدترین حملے نے اور واضح کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں ٹڈی دل کا موجودہ حملہ گزشتہ کئی دہائیوں میں ہونے والا بدترین حملہ ہے جو قحط کا سبب بھی بن سکتا ہے اس کی وجہ سے بہت ساری فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔

دوسرے ممالک میں ٹڈی دل کے اس طرح کے حملوں کے اثرات کو مدںظر رکھتے ہوئے بھارت میں ٹڈی دل کا یہ حملہ توقع سے کہیں زیادہ شدید ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے ، بصورت دیگر اس حملے سے بھارت کو زیادہ معاشی اور زرعی نقصان پہنچ سکتاہے۔

بھارتی معیشت کو درپیش خطروں میں صرف ٹڈی دل کا حملہ نہیں ہے۔ کووڈ ۱۹ کی وباپہلے ہی ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کرچکی ہے ۔ بھارت ایشیا میں کووڈ ۱۹ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن چکا ہے ۔ معیشت کی درجہ بندی کرنے والی تقریبا تمام ایجنسیوں نے بھارت میں گزشتہ مہیںوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کو نچلی ترین سطح پراور مجموعی معاشی صورتحال کو بدترین قرار دیا ہے۔

ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹڈی دل کا حملہ بھارتی معیشت کیلئے ایک اور بڑا دھچکا ثابت ہوسکتاہے ، جس سے ملک میں دیگر سماجی مسائل جیسے غربت میں اضافہ اور امیر اور غریب کے درمیان فرق مزید بڑھ سکتاہے۔

ان حالات میں بھی بعض بھارتی چینی مصنوعات اور سرمایہ کاری کے بائیکاٹ اور چین کے خلاف سخت معاشی اقدامات اختیار کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ زمینی حقائق اورموجودہ حالات کو مدنظررکھتے ہوئے بھارت چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا کسی صورت بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔

کووڈ۱۹ کی وجہ سے لاک ڈاؤن ، گرمی کی لہر اور حالیہ ٹڈی دل کے حملے کے تناظرمیں بھارت کے حالات افسوسناک ہیں اگر بھارت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑھکیں مارنے کی بجائے چین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے تویقینا چین بھارت کو انتہائی ضروری مدد فراہم کرسکتاہے۔ کیونکہ کوئی بھی معقول ملک اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات نہیں چاہتا اور چین بھی حالیہ تصادم کو طول نہیں دینا چاہتے۔

چین کیڑوں پر قابو پانے میں اپنی ہنگامی ردعمل کی صلاحیت کے ساتھ ٹڈیوں سے نمٹنے میں ہندوستان کی مدد کرسکتا ہے۔ چین زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر اور کیڑے مار ادویہ اور خصوصی آلات کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ اگرچہ ہندوستان میں کیڑے مار ادویات کی ایک بڑی صنعت موجود ہے ، لیکن چین کے کیڑے مار ادویہ سازی کے شعبے کی طرح جامع صلاحیت کی حامل نہیں ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت کے موجودہ ٹڈی دل کے حملے پر قابو پانے کیلئے چین کے پاس بھرپور صلاحیت اور لائحہ عمل موجود ہے۔ ان کے مطابق ان ٹڈیوں پر قابو پانے کیلئے بڑی مشینری کے استعمال کے ساتھ ساتھ کسانوں کو مناسب آلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی اور بڑے پیمانے پر زرعی مشینری تیار کرنے کے معاملے میں چین اور بھارت کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان طویل عرصے سے چینی مصنوعات پر پابندی عائد کر رہا ہے ، اور چین کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں سیاست کو پہلے رکھ رہا ہے۔

بعض بھارتی اپنی قوم پرستی میں بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حب الوطنی یا قوم پرستی ایک مثبت جذبہ ہے لیکن جب تک معقول حد میں رہے۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سرحدی تصادم میں دونوں فریقوں کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے ، لہذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ قوم پر ستی اور سستے جذبات کی آڑ میں حالات کو مزید خراب کرنے کی بجائے تناومیں کمی کی کوشش کی جائے اور مسئلے کا پرامن حل نکالا جائے۔
بھارت کے اندر کچھ گروہ اور سیاست دان ملک کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے چین کے خلاف قوم پرستی کے جذبات ابھار کر سخت مؤقف اپنانے کی پرچار کررہے ہیں۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نظرانداز کررہے ہیں کہ ہندوستانی معیشت اس قوم پرستی کی متحمل نہیں ہوسکتی جس سے معیشت اور لوگوں کے حالات مزید خراب ہوجائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارتی معیشت کسی بھی ملک کے ساتھ معاشی محاذآرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے