کہتے ہیں بغداد کے مناظرے بڑے مشہور ہوا کرتے تھے بڑے بڑے نامی گرامی مناظر شام ھوتے ہی محفلیں گرم کرتے تھے اور ایک دوسرے کو باطل ثابت کرنے کے لیے پہلوانوں کی طرح پنڈال میں اترتے تھےاور خوب محفل جمتی تھی لیکن آپ نے یہ بھی سن رکھا ہو گا کہ جانے کہا سے وہاں ہلاکو خان آن پہنچا اھل بغداد کو خبر نہ ہوئی اور بغداد شہر ویران ھو گیا دجلہ سرخ ھو گیا اور کھوپڑویوں کے مینار کھڑے کر دیئے گئے، زندہ قومیں ماضی سے سبق حاصل کرتی ہیں لیکن آجکل کے حالات دیکھ کر یوں محسوس ھوتا ھے کہ ہم ایسے واقعات کو کوہ کاف کے جنوں کی کہانی سمجھتے ہیں اور اسی طرح دست و گریبان ہیں جیسے اہل بغداد غافل تھے، اب تو کام اور بھی آسان ھے کہ سوشل میڈیا کے حمام میں گھُس جاؤ اور جس مخالف فرقے کےشخص کی دھوتی ملے لے اُڑو.
لیکن اب اکیسویں صدی ھے سائنس کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ھے انسانی شعور کا آفتاب پوری آب و تاب کے ساتھ روشنی دے رہا ھے ایسے میں اھل مذھب وہی "مار کٹائی” کھیل رہے ہیں لیکن انسان کے بیدار شعور نے ایسے تمام رویوں کو مسترد کردیا ھے جو انتہا پسندی، قدامت پسندی اور نفرت سے لبریز ہیں اور لوگ مذہب اور اہل مذہب سے بدظن ھو رہے ہیں ایسے میں انکو سب سے زیادہ الحاد اپنی جانب متوجہ کرتا ھے، ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے نظریات میں الحاد کا نمبر دوسرا ھے اور شائد مستقبل قریب میں یہ پہلے نمبر پر آجائے یہ ایک ایسا خطرہ ھے جو نہایت خاموشی سے لیکن بہت سُرعت سے لوگوں کے ازہان میں سرائیت کر رھا ھے پاکستان جیسے ملک میں اپنے آپ کو ملحد قرار دینا تو موت کو دعوت دینے کے مترادف ھے اس لیے یہاں انکی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ھے لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی انکی کیمپینز سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ وہ کس تیزی سے پھیل رھے ہیں اور تھوڑا سا بھی شعور رکھنے والے نوجوان فوراً انکے نظریات کی طرف متوجہ ھوجاتے ہیں. لیکن یہ انکی محنت یا کامیابی نہیں بلکے اہل مذھب کی ناکامی اور کج فہمی ھے. وہ اس لیے کہ اہل مذھب نے دین کو "اقدار” کے بجائے قوانین سمجھ کے قبول کیا ھے. خدا کے نام پر قتل و غارت گری اور ظلم کو رواج دیا ھے جبکہ ان چیزوں کا مذہب سے دور کا واسطہ بھی نہیں
نام نہاد ملائیت نے مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ مِل کر "طالبانہ” اور "داعشانہ” نظریات کو جنم دیا اور اسے اسلام کا لباس پہنانے کی کوشش کی. فلسفہ اور سائنس کو مذہب کی سوتن قرار دیا اور عوام الناس پہ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے مسلکی تقسیم، نفرت اور بغض کے ٹیکے لگا دیئے جس نے معاشرے کی شعوری صلاحیت پہ تقدس اور خوف کے قُفل ڈال دئیے، ہم بھول گئے کہ یورپ میں کلیسا نے ایک طویل جنگ کے بعد گھٹنے ٹیک دیئے،
الحاد کا سامنا کرنے کے لئےاہل مذھب کو فلسفہ سائنس اور جدید علوم پہ دسترس حاصل کرنا ھوگی میں یقین سے کہہ سکتا ھوں بڑے سے بڑے روایتی مناظر کو وہاں بھیج کے دیکھیں وہ نامراد لوٹے گا کیونکہ اسے تو وہی روایتی فقہ اور منطق کے اصول ازبر ہیں جبکہ ملحد اس سے کوانٹم فزکس، ڈارک میٹر، بلیک ھول اور ڈینس سینگولیرٹی کے متعلق سوال طلب ھوگا.
دین کی لاجیکل تعبیر کرنا ھوگی یہ وقت کی ضرورت ھے اور جدید دور کا تقاضا بھی ، شدت پسندی ، اوہام پرستی ، غیر منطقی عقائد نظریات و مذہبی رسومات اھل فکر و اھل خرد کو مذھب سے دور کرتے جائیں گےجب داعشی و طالبانی سوچ ملاَیت کی چھتری تلے خدا کے نام پر خدا کی بستی میں خدا کے بندوں کی زندگی اجیرن کر دے گی تو لوگ ایسے خدا کو کیونکر ماننے کو تیار ھونگے جو قتل و قتال اور جنگ و جدل کا سرچشمہ ھے،
میں پہلے بھی ایک تحریر میں لکھ چکا ھوں دین فقط اخلاق ھے اور علم مومن کی میراث ھے ، حور وغلمان اور مالِ غنیمت کے بجائے انسانیت کی بات کی جائے اور انسانیت کو مذھب کا مرکز و محور قرار دیا جائے اور دینی عقائد کو عقلی دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے تو میرے خیال سے کوئی ملحد مذھب کی جانب لوٹے یا نا لوٹے لیکن ہمارا معاشرہ پرامن ترقی پسند اور خوشحال ضرور ھوگا.
اسلام سب کو مذھبی آزادی کا حق دیتا ھے اس کا یہ مطلب بھی ھر گز نہیں کہ کوئی ملحد مل جائے تو اسے لٹکا دو بلکے اپنے علمی سطح کو اس قدر بلند کر لو کہ اس کے سوالات کے جوابات دے سکو! اور اسے ایسی ہستی کے وجود کے قائل بنا لو جو اس نظام ہستی کو چلا رہی ھے،،، میری رائے ہے کہ اھل مذھب ایک دوسرے کی تکفیر کا سلسلہ بند کریں اور حقیقی اسلام کی روش پہ چلتے ھوئے جدید علوم انسانی میں کمال حاصل کریں اور کشف اسرار کائنات کریں اور اپنے اندر دوسروں کی رائے کے احترام کا مادہ پیدا کریں برداشت کے کلچر کو فروغ دیں اور انسانیت کی بقا کا ہراول دستہ بنیں، نظریات کو تلوار سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکے اس سے بہتر نظریات لا کر ختم کیا جاسکتا ھے، اصلاح پسندی اختیار کریں اور ان روشن فکروں کا ساتھ دیں جو الحاد کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لئے کوشاں ہیں.