جے یو آئی کا جلسہ اور میڈیا پر برہمی

گزشتہ دنوں جے یو آئی نے سندھ میں اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کیا ، بلاشبہ یہ لاڑکانہ کے تاریخی جلسوں میں سے ایک تھا اس سے قبل اسی طرح کی اسلام زندہ باد کانفرس ہوئی تھی جسمیں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔۔۔۔

جے یو آئی پاکستان کی سب سے بڑی مذھبی پارلیمانی جماعت ہے ، جو جمعیت علمائے ھند کا تسلسل اور دیوبند مکتب فکر کی پاکستان میں نمائندگی کرتی ھے ، تاریخی طور پہ جمعیت علمائے ھند تقسیم کی مخالف جماعت تھی جس نے کانگریس کیساتھ اتحاد بنایا ، قیام پاکستان کے بعد جمعیت علمائے اسلام قائم کی گئی جسے اب پاکستان کے تقریبا تمام دیوبندی علماء کی تائید و حمایت حاصل ہے کئی بڑے بڑے شیوخ مولانا فضل الرحمن کو اپنا سیاسی قائد تسلیم کرتے ہیں ،1857 میں جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد علماء نے ھتھیار رکھنے اور پرامن سیاسی جدوجہد کا فیصلہ کیا ، دیو بند کی صورت میں مدرسے کی بیناد رکھی گئی اور کانگریس کیساتھ ملکر انگریز کے خلاف پرامن سرگرمیوں کا آغاز ہوا ، برصغیر کے عوام نے جمعیت علمائے ھند اور پشتونوں نے باچا خان کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے تقسیم ھند کے فیصلے کو سند قبولیت بخشی اور پاکستان آزاد ہوگیا ، جمعیت علمائے اسلام نے پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی جوجہد شروع کی ، دیو بند کے اکابرین نے کہا کہ پاکستان بننے سے پہلے اختلاف تھا قیام کے بعد نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعیت علمائے اسلام شریعت بذریعہ بندوق کی قائل نہیں ، مولانا فضل الرحمن بندوق کے زور پہ شریعت کو حرام اور فساد قرار دے چکے ہیں انکی وجہ سے ہزاروں نوجوان جہادی تنظیموں میں جانے سے بچے ۔۔۔۔
ماضی کا ذکر طویل ہوگیا ، لاڑکانہ جلسے کے تناظر میں ذکر تھا جے یو آئی کا ۔۔۔۔۔۔

مذھبی جماعتوں کے جلسے جلوس میں آنے والے عوام کو دیکھیں اور پھر الیکشن کے نتائج کا موازنہ ہو تو حیرت ہوتی ہے ، اس کامیاب جلسے کے مطابق جے یو آئی کو سندھ میں کلین سوئپ کے قریب تر کی کارکردگی دکھانی چاھئیے لیکن عملا ایسا ہوتا نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جلسے کا حجم کئی گنا جبکہ اسکے نتیجے میں ملنے والی کامیابی خاصی کم ہوتی ھے ۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ھے اس کے اسباب پہ غور کرنا ان جماعتوں سے جڑے اصحاب نظر کا کام ھے ۔۔۔۔۔۔

ھندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی جمعیت علمائے ھند کیا کرتی تھی ، وہاں کے اردو بولنے والے اس جماعت کی جان تھے ، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اسکا تاثر پشتونوں کی مذھبی جماعت کا بنتا ھے اور پارلیمانی کامیابی بھی خیبر و بلوچتسان کے پشتون بیلٹ سے ملتی ھے ، جماعت کے اہل فکر کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان میں قوت کے مرکز پنجاب اور اردو بولنے والے مہاجروں میں انکی تنظیم کو پذیرائی کیوں نہیں مل سکی ؟؟؟

ایسا نہیں ھے کہ اردو بولنے والے مذھبی رجحان نہیں رکھتے ، بلکہ تبلیغی جماعت ، مفتی برادران سمیت دروس قرآن کے کئی حلقوں میں نہ صرف وہ شریک ہوتے ہیں بلکہ اسکا انتظام بھی انہی کے سپرد ھے جماعت اسلامی الیکشنز میں مار کھانے کے باوجود اردو بولنے والوں میں منظم ھے، جےیو آئی بینادی طور پہ علماء کی جماعت ھے ، جس میں عامی بھی ہیں لیکن غلبہ بہرحال علماء کا ہی ہے ، مذکورہ بالا تمام لوگوں کو اس دائرے میں کیسے لایا جائے یہ انہی کے سوچنے کا کام ہے کیونکہ صرف خشک قسم کی علمی مجالس سے نوجواں کو کوئی سروکار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمن عالم اسلام کی بات کرتے ہیں پاکستان کی مذھبی قیادت ، جس کا تعلق خواہ کسی مسلک یا فرقے سے ہو انکا مضبوط رابطہ رہتا ھے ، لیکن جماعت کی کل سیاست مکتب دیو بند کے گرد گھومتی ھے بظاہر یوں لگتا ہے کہ مولانا اپنی بصیرت کے باوجود کارکنوں کو مسلک کے حصار سے باہر نہیں نکال پائے ہیں ۔۔۔۔

مولانا دلیل کے بادشاہ ہیں ، آپ انکے پاس بیٹھیں وہ دو منٹ میں بڑے سے بڑے مسلہ کا عقدہ کھول کر بیان کردیتے ہیں ۔۔۔۔حالیہ عرصے میں عمران خان واحد سیاست دان ہیں جنکی وجہ سے مولانا کا ووٹ بینک شدید متاثر ہوا اور وہ اشتعال میں آئے وجہ خان کے بیانات تھے جس نے جے یو آئی کو بالکل الگ محاذ پہ مصروف کردیا ۔۔۔۔۔

بقول مولانا شیرانی کے کہ مولانا فضل الرحمن کو شخصیات کیساتھ الجھنے کے بجائے اصولوں کی بات کربنی چاھئیے کیونکہ اسی میں سب کا بھلا ھے ۔۔۔۔۔

جمعیت علمائے اسلام کے احباب میڈیا سے شاکی رھتے ہیں کہ انہیں مطلوبہ کوریج نہیں مل پاتی یہ بات بڑی حد تک درست بھی ھے لیکن اسکا ایک پہلو یہ بھی ھے خود آپکی جماعت کے نشرو اشاعت کے لوگ کتنے فعال ہیں ؟؟؟؟؟

وہ کتنے صحافیوں سے رابطہ کرتے ہیں ؟؟ کتنے چینلز و اخبارات کا دورہ کرتے ہیں اپنے جلسے جلوسوں کی بابت آگاہ کرتے ہیں ؟؟؟

جاننے والے جانتے ہیں کہ جے یو آئی کا شعبہ نشرو اشاعت سال میں ایک آدھ بار اچانک انگڑائی لیکر بیدار ہوتا ھے اور پھر ستو پی کے سو جاتا ہے ۔۔۔۔ جب آپکو دلچسپی نہیں تو میڈیا کو کیا پڑی ھے آپکی کوریج کی ؟؟؟ سو پہلے اپنا گریبان بعد میں میڈیا کا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے